الحمد للہ.
اول:
جب مال پر ایک سال گزر جائے تو اس کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، لیکن زرعی پیداوار کی زکاۃ اسی وقت دینا ضروری ہے جس دن اسکی کٹائی ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ اور تم اس [زرعی پیداوار] کا حق اسی دن ادا کرو جس دن تم اسے کاٹتے ہو۔[الأنعام : 141]
چنانچہ جس وقت بھی سال مکمل ہو تو زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے، جس کیلئے فرمانِ باری تعالی ہے: سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِاپنے رب کی مغفرت، اور جنت کی طرف دوڑتے ہوئے سبقت کرو، اس جنت کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے۔ [الحديد : 21]
اور اسی بارے میں ابن بطال کہتے ہیں:
"بلاشبہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنی چاہئے، کیونکہ [نیکیوں کے راستے میں]آفتیں درپیش ہو جاتی ہیں، رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں، موت کا کوئی پتا نہیں، اس لئے نیکی میں تاخیر کرنا اچھا نہیں ہے۔
جبکہ ابن حجر وغیرہ نے اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ :
وقت پر زکاۃ ادا کرنے سے [مالدار شخص کی ]ذمہ داری اور [غریب کی]ضرورت پوری ہوتی ہے، چنانچہ انسان مذموم ٹال مٹول سے دور، اور رضائے الہی، و گناہوں کی معافی کے قریب تر ہوجات ہے"
" فتح الباری " ( 3 / 299 )
دوم:
سال مکمل ہونے پر زکاۃ کو کسی شرعی عذر کی بنا پر ہی مؤخر کیا جاسکتا ہے۔
سوم:
سال مکمل ہونے سے پہلے قبل از وقت زکاۃ کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔
اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ نے دو سال کی ایڈوانس زکاۃ وصول کی تھی۔
اس روایت کو ابو عبيد قاسم بن سلاَّم نے " الأموال " ( 1885 ) میں روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے" ارواء الغلیل" ( 3 / 346 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل از وقت زکاۃ کی ادائیگی کے بارے میں استفسار کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں اسکی اجازت دے دی۔
اس روایت کو ترمذی ( 673 ) ابو داود ( 1624 ) اور ابن ماجہ ( 1795 ) نے بیان کیا ہے، اور مسند احمد کی تحقیق (822)میں شیخ احمد شاکر نے صحیح قرار دیا ہے۔
چہارم:
لوگوں کی رمضان میں مالی امداد دیگر مہینوں سے افضل ہے، چنانچہ اس بارے میں عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے سخی تھے، آپ کی سخاوت رمضان میں اسوقت مزید بڑھ جاتی جب آپ جبریل سے ملتے تھے، آپ رمضان کی ہر رات میں جبریل سے ملتے، اور قرآن کا دور کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ خیرات کرتے تھے۔
بخاری: (6) مسلم: (2308)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں متعدد فوائد ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ رمضان میں کثرت کیساتھ صدقہ کرنا چاہئے۔
چنانچہ اگر کسی شخص کی زکاۃ کی ادائیگی کا وقت رمضان میں تھا یا رمضان کے بعد تو اس نے قبل از وقت رمضان میں رمضان کی فضیلت پانے کیلئے زکاۃ ادا کردی تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اگر رمضان سے قبل ادائیگی کا وقت تھا، مثلا رجب میں زکاۃ ادا کرنے وقت تھا تو اس نے زکاۃ رمضان میں ادا کرنے کیلئے تاخیر کی تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ کسی شرعی عذر کی بنا پر ہی زکاۃ کو اسکے وقت سے مؤخر کیا جاسکتا ہے۔
پنجم:
بسا اوقات ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ زکاۃ غیر رمضان میں ادا کرنا افضل ہو، مثلا کسی مسلمان ملک میں قحط سالی ، کوئی قدرتی آفت یا حادثہ پیش آجائے، تو اس وقت زکاۃ ادا کر دینا رمضان میں زکاۃ ادا کرنے سے افضل ہے۔
بالکل اسی طرح یہ صورت بھی ہے کہ لوگوں کی اکثریت رمضان میں اپنے مال کی زکاۃ ادا کرتی ہے، جس سے فقراء کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، لیکن غیر رمضان میں فقراء کو دینے والا کوئی نہیں ہوتا، تو ایسی صورت میں فقراء کو غیر رمضان میں دینا افضل ہے، اس کیلئے چاہے فقراء کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مقررہ وقت سے زکاۃ کو مؤخر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ششم:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
فقراء کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے زکاۃ مؤخر کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس سے فقراء کو کسی قسم کا نقصان نہ ہو، مثلاً: ہمارے ہاں رمضان میں کثرت سے زکاۃ ادا کی جاتی ہے، جسکی وجہ سے اکثر فقراء غنی ہوجاتے ہیں، لیکن سردی کے جن دنوں میں رمضان نہیں ہوتا ان دنوں میں فقراء کی ضروریات شدت پکڑ جاتی ہیں، اور اس وقت زکاۃ ادا کرنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں تاخیر سے زکاۃ ادا کرنا فقراء کے مفاد میں ہوگا۔
" الشرح الممتع " ( 6 / 189 )
واللہ اعلم.