جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

آپ توبہ كريں ليكن سودى قرض كى جلد ادائيگى لازم نہيں

85562

تاریخ اشاعت : 08-05-2007

مشاہدات : 6565

سوال

ميں شادى كے بعد چار برس تك ايك چھوٹے سے فليٹ ميں زندگى بسر كرتا رہا، اور جب اللہ تعالى نے ہميں بچہ عطا كيا تو ہم نے اس فليٹ سے بڑا فليٹ لينے كے ليے اسے فرخت كر ديا اور اس كى قيمت نئى كالونى ميں اور فليٹ خريدنے كے ليے پيشگى پچاس فيصد رقم جمع كروا دى، اور ان كے ساتھ باقى قيمت قسطوں ميں دينے كا ارادہ كيا، ليكن مجھے حيرانگى ہوئى كہ كالونى كا قسطوں والا نظام عجيب ہے اور وہ اس كا كوئى خيال نہيں كرتے كہ پچاس فيصد رقم پيشگى ادا ہوئى ہے، بلكہ وہ سود سارى رقم پر لينگے، اس ليے مجھے مجبورا بنك سے سود پر قرض حاصل كرنا پڑا، اور اس روز سے پريشان ہوں كہ آيا ميں مجبور اور مضظر كے حكم ميں آتا ہوں يا نہيں ؟
اور اگر ايسا كرنا حرام تھا تو كيا ميں قرض ميں سے كچھ كى ادائيگى كے ليے اپنى پرانى گاڑى فروخت كردوں، تا كہ ميرے گناہ كا كچھ نہ كچھ كفارہ ادا ہو جائے، اور كچھ مدت بعد ميں قسطوں ميں گاڑى خريدنے كى كوشش كرلوں، جيسا كہ ميں نے پڑھا ہے كہ قسطوں ميں كوئى خريدنى حلال ہے، ميں آپ كو اللہ كى قسم دے كر كہتا ہوں كہ آپ ميرى مدد كريں، ميں ايك ايسے ملك ميں رہتا ہوں جہاں كا دارالافتاء اكثر فقھى مسائل سہولت كے ساتھ حل كر ديتا ے، اور جب ميں ان كے پاس گيا تو انہوں نے ميرے ليے قرض حلال قرار ديا، حالانكہ مجھے علم ہے كہ يہ حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بنك وغيرہ سے فائدہ اور سود پر قرض حاصل كرنا جاہليت كے سود والى ايك صورت ہے، جسے اسلام نے ختم كر ديا اور اسے بہت شديد قسم كا حرام قرار ديا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں بہت شديد قسم كى وعيد سنائى ہے جو كسى اور گناہ پر نہيں سنائى گئى.

اور پھر گھر كى خريدارى كوئى ايسى ضرورت نہيں جو سود كو مباح كرنے والى ضروريات ميں شامل ہوتى ہو؛ جبكہ ضرورت اسے شمار كيا جاتا ہے جس كے بغير آدمى ہلاك ہو جائے، يا قريب المرگ ہو جائے اور رہائش كى ضرورت تو كرايہ ادا كر كے بھى پورى كى جا سكتى ہے، يا پھر اسى چھوٹے فليٹ ميں رہ كر بھى، حتى كہ اللہ تعالى حالت ميں آسانى پيدا فرمائے اور نيا مكان خريدنے كى ہمت پيدا ہو جائے.

آپ كے ليے يہ بہتر تھا كہ آپ فليٹ كى زيادہ قيمت كا ظلم برداشت كر ليتے، نہ كہ سودى لين دين كرنے كى كوشش كرتے، اس ليے اب آپ پر واجب ہے كہ اس عظيم گناہ سے توبہ و استغفار كريں، اور آئندہ يہ پختہ عزم كريں كہ ايسا كام دوبار نہيں كرينگے.

آپ سوال نمبر ( 39829 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

آپ كے علم ميں ركھيں كہ آپ يہ سودى قرض جتنى جلدى ادا كر ديں اتنا ہى بہتر اور اچھا ہے، تا كہ آپ اس كے اثرات اور نحوست اور سزا سے چھٹكارا حاصل كر كے محفوظ ہوں، ليكن آپ كے ليے ايسا كرنا لازم نہيں اس بنا پر آپ پر قرض كا كچھ حصہ ادا كرنے كے ليے اپنى گاڑى فروخت كرنا لازم اور ضرورى نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب