الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے توفيق و صحيح راہنمائى كى درخواست كرتے ہيں، دعا ہے كہ آپ كے ملازمت ترك كرنے كا نعم البدل آپ كو عطا فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند نصيب كرے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.
دوم:
اگر طرفين كى رضامندى اور ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں عقد نكاح طے پائے تو يہ شادى صحيح ہے، چاہے عقد نكاح كے فورا بعد رخصتى كر لى جائے يا پھر كچھ يا زيادہ مدت كے بعد رخصتى ہو.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نكاح كيا، ليكن آپ كى رخصتى تين برس بعد مدينہ جا كر ہوئى.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3894 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1422 ).
دوم:
بہتر تو يہى ہے كہ اس لڑكے كے گھر والوں كو اس شادى پر مطمئن كيا جائے كيونكہ اس ميں ہى آپ دونوں اور آپ كى اولاد كے ليے مصلحت و فائدہ ہے، اور يہ كوشش كى جائے كہ اس نوجوان كے گھر والوں كى موافقت سے ہى يہ شادى ہو تا كہ نہ ختم ہونے والے جھگڑوں اور اختلافات سے نجات حاصل ہو سكے، كيونكہ اس كا ازدواجى زندگى پر منفى اثر ہوتا ہے.
سوم:
ہم يہ متنبہ كرتے ہيں كہ آپ كا اس نوجوان كے ساتھ تعلقات ركھنا جائز نہيں، كيونكہ منگيتر لڑكى اور لڑكى عقد نكاح ہونے تك ايك دوسرے كے ليے اجنبى ہوتے ہيں.
واللہ اعلم .