الحمد للہ.
الحمدللہجی ہاں خاوند اوربیوی دونوں کا ایک دوسرے کے بارہ میں سوچنا جائز ہے ، لیکن یہاں اس مسئلہ میں کچھ امور کی وضاحت بھی ضروری ہے :
1 - مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی سے چھ ماہ سے زيادہ غائب اوردورنہ رہے جیسا کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے مقرر کیا تھا ، یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں موجود ہے دیکھیں مصنف عبدالرزاق ( 7 / 152 ) ۔
مسلمان جب اس سے زيادہ مدت غائب اوردور رہے گا تو پھردونوں کے لیے ہی فتنہ میں پڑھنے کا گمان ہوسکتا ہے ، اورشیطانی وسوسے سے بھی اسے گھیرے رکھیں گے ۔
اورہوسکتا ہے کہ ایسی سوچ اسے بہت سارے محذورات تک لےجائے ، ہوسکتا ہے کہ انسان جب یہ سوچے تواس کی شھوت میں انگیخت پیدا ہواوروہ اسے پورا کرنے کی ضرورت محسوس کرے ، اورپھر اسے یہ حرام کام کی طرف کھینچنا شروع کردے – اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے – اورشھوت توانسان کی عقل کی بھی حاکم ہے اوراسے سلطہ حاصل ہے ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اسے گندی تصاویریا پھر حرام کردہ اشیاء کی طرف دیکھنے کی دعوت دے ۔
2 - مسلمان کوچاہیے کہ وہ اپنی شھوت کوکم اورختم کرنے کے لیے روزہ رکھے اوراپنی نظریں نیچی رکھے ، اورفتنہ وفساد والی جگہوں سے بھی اپنے آپ کوبچائے ، اوراسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اورڈر اختیار کرے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورشیطان کے قدموں پر نہ چلو اس لیے کہ وہ تو تمہارا واضح اورکھلا دشمن ہے البقرۃ ( 168 ) ۔
3 - اس موضوع کے متعلقہ موضوع میں سے یہ بھی ہے کہ :
کسی بھی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی عورت کواپنے خاوند کے اوصاف بتاتی رہے حتی کہ وہ بھی اس کا خیال کرنے لگے گویا کہ وہ اس کی طرف دیکھ رہی ہے ۔
ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عورت دوسری عورت سے مباشرت نہ کرے اورپھر وہ اپنے خاوند کواس کے بارہ میں بتانے لگے گویا کہ وہ بھی اس کی طرف دیکھ رہا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4942 ) ۔
واللہ اعلم .