اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كونسے بال اتارنے جائز ہيں، اور كونسے اتارنے جائز نہيں ؟

9037

تاریخ اشاعت : 18-02-2008

مشاہدات : 16695

سوال

مجھے علم ہے كہ ابرو كے بال اتارنے، اور چہرے كے بال نوچنے حرام ہيں، ليكن مجھے علم ہے كہ ہونٹوں كے اوپر والے بال اتارنے ممكن ہيں، ليكن جو بال سر اور ابرو كے درميان ہوں ان كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بال اتارنے كے اعتبار سے علماء نے بالوں كو تين قسموں ميں تقيسم كيا ہے:

پہلى قسم:

وہ بال جن كے اتارنے اور كاٹنے كا حكم ديا گيا ہے.

اور وہ يہ بال ہيں جنہيں فطرتى سنت كہا جاتا ہے، مثلا زير ناف بال، اور مونچھوں كے بال، اور بغلوں كے بال، اور اس ميں حج اور عمرہ كے موقع پر سر كے بال چھوٹے كرانا اور سر منڈانا بھى داخل ہوتا ہے.

اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دس چيزيں فطرت ميں سے ہيں: مونچھيں كاٹنا، داڑھى بڑھانا مسواك كرنا، ناك ميں پانى چڑھانا، ناخن كاٹنا، انگليوں كے پورے دھونا، بغلوں كے بال اكھيڑنا، زير ناف بال مونڈنا، اور پانى سے استنجا كرنا "

زكريا كہتے ہيں: مصعب نے كہا: ميں دسويں چيز بھول گيا ہوں مگر وہ كلى كرنا ہو سكتى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 261 ).

انتقاص الماء كا معنى استنجاء كرنا ہے.

دوسرى قسم:

وہ بال جن كو اتارنے كى حرمت آئى ہے.

اس ميں ابرو كے بال اتارنے شامل ہيں، اور اس فعل كو النمص كا نام ديا جاتا ہے، اور اسى طرح داڑھى كے بال

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" اللہ تعالى گودنے اور گدوانے واليوں، اور ابرو كے بال اكھيڑنے اور اكھڑوانے واليوں، اور خوبصورتى كے ليے دانت رگڑ كر باريك كرنے واليوں اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے واليوں پر لعنت فرمائے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5931 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" مشركوں كى مخالت كرو، اور داڑھيوں كو بڑھاؤ، اور مونچھيں پست كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5892 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 259 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" النامصۃ: وہ عورت ہے جو چہرے كے بال اتارے.

اور المتنمصۃ: وہ عورت ہے جو اپنے چہرے كے بال اتروائے، اور يہ فعل حرام ہے، ليكن اگر عورت كو داڑھى يا مونچھيں آ جائيں تو اسے اتارنا حرام نہيں، بلكہ ہمارے نزديك وہ مستحب ہے "

ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 14 / 106 ).

تيسرى قسم:

وہ بال جن سے شريعت خاموش ہے، ان كے متعلق نہ تو اتارنے كا حكم ہے، اور نہ ہى انہيں باقى ركھنے كا وجوب، مثلا پنڈليوں اور ہاتھوں كے بال، اور رخساروں اور پيشانى پر اگنے والے بال.

تو ان بالوں كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے:

كچھ علماء كہتے ہيں كہ: انہيں اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ انہيں اتارنے ميں اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى نے شيطان كى بات نقل كرتے ہوئے فرمايا:

اور ميں يقينا انہيں اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كا حكم دونگا النساء ( 119 ).

اور كچھ علماء كا كہنا ہے: يہ بال ان ميں شامل ہے جس پر شريعت ساكت ہے، اور اس كا حكم اباحت والا حكم ہے، اور وہ انہيں باقى رہنے يا اتارنے كا جواز ہے؛ كيونكہ جس سے كتاب و سنت خاموش ہو وہ معاف كردہ ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نےبھى يہى قول اختيار كيا ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 3 / 879 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

ا ـ عورت كے ليے اپنى مونچھوں، رانوں، اور پنڈليوں، اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ ممنوعہ تنمص ميں سے نہيں ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195 ).

ب ـ مستقل فتوى كميٹى سے دريافت كيا گيا:

اسلام ميں ابرو كے درميان بال نوچنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

انہيں نوچنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہيں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃالدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 197 )

اور كميٹى سے يہ بھى سوال كيا گيا:

عورت كے ليے اپنے جسم كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

سر اور ابرو كے بالوں كے علاوہ عورت كے ليے بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سركے بال بالكل اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى ابرو كے كچھ بال مونڈنے جائز ہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 ).

سائل كے قول پر تنبيہ:

مجھے علم ہے كہ ابرو كے بال نوچنے حرام ہيں، اور چہرے كے بال اتارنے حرام ہيں.

يہاں ہم سائل كو متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ: ابرو كے بال نوچنا حرام،اور كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے والے پر لعنت فرمائى ہے.

ليكن باقى چہرے كے سارے بالوں كے متعلق اتارنے كے جواز ميں نمص كے معنى ميں اختلاف كى وجہ سے اختلاف كيا ہے.

بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ: چہرے كے بال اتارنا النمص ہے، يہ صرف ابرو كے بالوں كے ساتھ ہى خاص نہيں.

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ: خاص كر ابرو كے بال نوچنا ہى النمص كہلاتا ہے، مستقل فتوى كميٹى نے يہى قول اختيار كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا فتوى سے بھى ظاہر ہوتا ہے.

كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

النمص ابرو كے بالوں كو اتارنا نمص كہلاتا ہے، اور يہ جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابرو كے بال نوچنے والى اور جس كے بال نوچے جائيں اس پر لعنت فرمائى ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب