الحمد للہ.
امام احمد اورامام شافعی کا اس میں مسلک ہے کہ روزہ دار کے بے ہوش ہونے کی دو حالتیں ہیں :
وہ سارا دن ہی بے ہوش رہے ، یعنی وہ فجر سے قبل بے ہوش ہوا اورغروب شمس سے قبل اسے ہوش نہيں آئي ، تواس شخص کا روزہ صحیح نہیں ، بلکہ اس شخص پر اس دن کی قضاءلازم ہے ۔
اس کے روزہ کے صحیح نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ روزہ تو نیت کے ساتھ روزہ توڑنے والی اشیاء سے پرہیزکرنے کا نام ہے ۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( وہ کھانا پینا اوراپنی شھوت صرف میرے لیے ترک کرتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1151 ) ۔
تواس حدیث میں اللہ تعالی نے ترک کی اضافت صائم یعنی روزے دار کی طرف کی ہے ، اوربے ہوش شخص کی طرف تو ترک کرنے کی اضافت نہیں ہوسکتی ۔
اوراس کے روزہ کو بعد میں بطور قضاء رکھنے کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :
اورجوکوئي مریض ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 185 ) ۔
دوسری حالت :
یہ کہ دن کے کسی حصہ میں اسے ہوش آجائے - چاہے ایک لحظہ ہی - دن کے شروع میں یا پھر درمیان اورآخرمیں ہوش آنا برابر ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
صحیح قول یہی ہے کہ دن کے کسی بھی حصہ میں ہوش آنا شرط ہے ۔ اھـ
یعنی بے ہوش ہونے والے شخص کا روزہ صحیح ہونے کے لیے دن کے کسی حصہ میں ہوش میں آنا شرط ہے ۔
اس کا روزہ صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب دن میں وہ کسی بھی وقت ہوش میں آجائے تواس کا روزہ توڑنے والی اشیاء سے رکنا بالجملہ ثابت ہوگیا ۔
دیکھیں : حاشیۃ ابن قاسم علی الروض المربع ( 3 / 381 ) ۔
جواب کا خلاصہ :
جب کوئي شخص پورا دن یعنی طلوع فجر سے غروب شمس تک ہی بے ہوش رہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے ذمہ قضاء ہوگي ۔
اورجب دن کے کسی بھی حصہ میں اسےہوش آجائے تواس کا روزہ صحیح ہوگا ، امام احمد ، امام شافعی رحمہم اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے ، اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ۔
دیکھیں : المجموع ( 4 / 344 ) الشرح الممتع ( 6 / 365 ) ۔
واللہ اعلم .