بدھ 6 ربیع الثانی 1446 - 9 اکتوبر 2024
اردو

شادی کے متعلق حدیث میں استطاعت سے کیا مراد ہے

9262

تاریخ اشاعت : 04-06-2003

مشاہدات : 12980

سوال

نوجوانوں کو شادی پرابھارنے والی حدیث میں لفظ استطاعت وارد ہوا ہے تواس کلمہ سے کیا چيز چیز مقصود ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جوبھی استطاعت رکھتا ہے ہو وہ شادی کرے ، اور جوطاقت نہیں رکھتا اس چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔

وجاء کا معنی فحاشی سے بچاؤ ہے ۔

علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کے " الباءۃ " معنی میں دو قول ہیں :

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے نکاح کرنے کی قدرت اورخرچہ مراد ہے ، اوردوسرا قول یہ ہے کہ : اس سے جسمانی طاقت مراد ہے کہ اس میں جماع کرنے کی طاقت ہونی چاہیے ۔

توان دونوں معانی میں سے کوئ ایک دوسرے کے منافی نہیں ، تواس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ جونوجوان بھی جماع کی قدرت اورنکاح کا خرچہ رکھتا ہے وہ شادی کرے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

علماء کرام باءۃ کے معنی میں دو قول ذکر کرتے ہیں ، جوکہ ایک ہی معنی پرلوٹتے ہیں ان میں صحیح یہ ہے کہ : اس سے لغوی معنی یعنی جماع مراد ہے ، تواس طرح حدیث کا معنی یہ ہے ہوگا : تم میں سے جوبھی نکاح کے لوازمات کی قدرت سے جماع کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، اورجومالی طاقت سے عاجزہو وہ روزے رکھے تاکہ اپنی شہوت کنٹرول اور منی کے شرکوختم کرسکے جس طرح کہ ڈھال بچاؤ کرتی ہے ۔ ا ھـ شرح مسلم ( 9 / 173 ) ۔

اورابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

باءۃ کی تفسیر وطئ بھی کی گئ ہے اورمئونہ نکاح بھی ، توپہلی تفسیر منافی نہیں اس لیے کہ اس کا معنی باءۃ کے لوازمات ہیں ۔ دیکھیں : روضۃ المحبین ص ( 219 ) ۔

اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

استطاعت نکاح ہی قدرت مئونہ ہے نہ کہ قدرت وطئ کیونکہ حدیث میں خطاب ہی اسے ہے جووطئ کے فعل پرقادر ہو ، اور اس لیے ہی جویہ استطاعت نہیں رکھتا اسے روزے کا حکم دیا گيا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے بچا‎ؤ ہے ۔ ا ھـ الفتاوی الکبری ( 3 / 134 ) ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب