الحمد للہ.
سوال نمبر ( 82400 ) كے جواب ميں معلق طلاق كا حكم بيان كيا جا چكا ہے، اور اس سلسلہ ميں اقوال كى تفصيل بھى بيان ہوئى ہے، اور اس ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ طلاق ميں جلد بازى كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور طلاق كى قسم نہيں اٹھانى چاہيے، اس ليے آپ سوال كے جواب كا مطالعہ كريں.
آپ كى خالہ كو علم ہونا چاہيے كہ كسى كام كے حصول پر طلاق كے معلق ہونے كا علم ہونا شرط نہيں، اور اسى طرح يہ بھى شرط نہيں كہ وہ خاوند سے خود طلاق كےالفاظ سنے، ليكن اس كے خاوند كو چاہيے تھا كہ اس نے جو كچھ كيا ہے اسے ضرور بتانا چاہيے تھا.
اگر تو وہ اس سے طلاق كا ارادہ ركھتا تھا تو بہن كے گھر ميں داخل ہونے سے اسے طلاق ہو گئى، چاہے اسے اس كى كلام كا علم بھى نہ تھا، ليكن اگر اس نے اس سے اسے بہن كے گھر ميں داخل ہونے سے منع كرنا مراد ليا تھا تو پھر طلاق نہيں ہوئى، بلكہ اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 43481 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .