اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فجر تک ڈیوٹی ہوتی ہے، تو کیا ممکن ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے ادا کرے؟

سوال

میں سعودی کمپنی ارامکو کا ملازم ہوں، حرض کے علاقے میں میری 12 گھنٹے کی ڈیوٹی دن اور رات میں شفٹ ہوتی رہتی ہے، سات دن صبح 6 سے شام 6 بجے اور پھر آئندہ سات دن شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک جس کی وجہ سے مجھے ظہر اور عصر کی نماز با جماعت ادا کرنے میں بہت زیادہ دقت ہوتی ہے، تو کیا میرے لیے ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ میری رہائش جدہ میں ہے اور حرض میں صرف ڈیوٹی کے لیے آتا ہوں اور ہفتہ پورا ہونے پر واپس جدہ چلا جاتا ہوں، میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ نماز وقت پر ادا کرنے کے لیے اٹھوں لیکن اکثر اوقات نماز با جماعت مجھ سے رہ جاتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

تمام لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نمازیں وقت پر ادا کریں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
ترجمہ: یقیناً نماز مومنوں کے لیے وقت مقررہ پر ادا کرنا لکھ دی گئی ہے۔[النساء: 103]

اسی لیے اللہ تعالی نے بھی ایسے اہل ایمان کی تعریف کی ہے جنہیں ان کی تجارتی سرگرمیاں اللہ تعالی کی اطاعت گزاری سے روک نہیں پاتیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالأَبْصَارُ * لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
ترجمہ: ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی [37] اس ارادے سے کہ اللہ انہیں اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ عطا فرمائے، اللہ تعالی جس چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے۔ [النور: 37 -38]

پس آپ پر واجب ہے کہ آپ نماز کے وقت بیدار ہونے کی مکمل کوشش کریں، اور اس کے لیے معاون اسباب بھی اپنائیں، لیکن اگر پھر بھی ایسا ہوا کہ آپ بسا اوقات نماز با جماعت سے رہ جاتے ہیں حالانکہ آپ بیدار ہونے کے تمام اسباب بھی اپناتے ہیں تو پھر آپ پر کچھ نہیں ہے۔

دوم:

اگر کوئی شخص کسی علاقے میں سفر کر کے جائے اور وہاں پر 4 دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے تو وہ مقیم کے حکم میں ہو گا، اس پر نماز مکمل کرنا لازم ہو گا، نیز اس کے لیے سفر کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہو گا۔ تاہم نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت محض سفر کے ساتھ خاص بھی نہیں ہے، بلکہ بیماری، بارش اور مشقت کی وجہ سے بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (38079 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔

اس بنا پر:

اگر آپ کو غالب گمان ہو کہ آپ نماز ظہر کے لیے بیدار نہیں ہو سکیں گے اور آپ کے لیے نماز کے واسطے اٹھنا مشقت کا باعث ہو گا تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ نماز ظہر مؤخر کر کے عصر کے ساتھ جمع تاخیر کر سکتے ہیں، لیکن جمع تاخیر کی یہ گنجائش تبھی ہے جب آپ کے لیے مشقت ہو، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کو مشقت ہو یا نہ ہو ہر حالت میں ہی نمازیں جمع کرنا شروع کر دیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب