الحمد للہ.
علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ بچے كا حج صحيح ہے ، اور امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ تعالي كا قول ہے كہ اس سے كفارہ واجب ہونے كاكوئي تعلق نہيں , اور علماء كرام اس پر بھي متفق ہيں كہ بچے كا يہ اس كا فرضي حج نہيں ہوگا اس ليے بالغ ہونے كےبعد اسے دوسرا حج كرنا ضروري ہے.
بچے كے حج كي تين حالتيں ہيں :
پہلي حالت : بچہ چلنے پر قادر ہو تواس حالت ميں وہ اپنا طواف خود ہي كرے گا .
دوسري حالت : بچہ چلنے كي استطاعت نہ ركھتا ہو اور تميز كرسكتا ہو تو اس حالت ميں بچے كواٹھانے والا اپني اور بچے كي جانب سے نيت كرے تو ايك طواف اور سعي دونوں كي جانب سےكافي ہے .
تيسري حالت : بچہ بالكل چھوٹا ہو اورتميز بھي نہ كرسكے تواس حالت ميں بھي اس كا ولي يا بچے كواٹھانے والا اس كي جانب سے نيت كرے تودونوں كي جانب سے ايك طواف اور سعي كافي ہوگي ان دونوں كي حالت سواركے حالت كے قريب ہے .
اور بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ پہلے اپنا طواف كرےاور پھر دوسرا طواف بچے كي جانب سے .
ليكن پہلاقول ہي صحيح ہے صحيح مسلم ميں مندرجہ ذيل حديث مروي ہے :
ابن عيينہ ابراھيم بن عقبہ سے وہ كريب مولي ابن عباس سے اور وہ ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے اور وہ نبي كريم صلي اللہ وسلم سے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كوروحاء نامي جگہ پر ايك ايك قافلہ ملا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے دريافت فرمايا كہ كون لوگ ہيں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ مسلمان ، تو وہ كہنے لگے آپ كون ہيں؟ تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اللہ كارسول ہوں .
توايك عورت نے ايك بچہ نبي صلي عليہ وسلم كے سامنے كيا اور كہنےلگي : كيا اس كا بھي حج ہے ؟ تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : ہاں اور تجھے اس كا اجر ملے گا . صحيح مسلم ( 1336 ) .
اور نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ اپني اوراس كي جانب سے دوطواف كرنا، اور ضرورت كے وقت سے بيان ميں تاخير جائز نہيں .
ابوحنيفہ رحمہ اللہ تعالي كايہي مسلك ہے اور ابن منذر نے بھي اسے اختيار كيا ہے اور ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ نے اپني كتاب المحلي ( 5 / 320 ) ميں كہا ہے كہ ہم بچے كا حج مستحب قرار ديتے ہيں چاہے وہ چھوٹا ہو يا بڑا اس كا حج ہے اور اجروثواب بھي ليكن يہ حج نفلي ہوگا اور اسے كروانے والے كوبھي اجروثواب حاصل ہوگا ، اوربچہ بھي احرام والے كي طرح احرام كي ممنوعات سے اجتناب كرے اور اگر وہ كسي ايسي چيز كا ارتكاب كرلےجواس كےليے حلال نہيں تواس پر كچھ لازم نہيں آئےگا، اوراگر وہ طاقت نہ ركھےتو اس كا طواف بھي كيا جائے گا اور اس كا جانب سے رمي بھي كي جائے گي ، اسے(اٹھاكر) طواف كروانے والے كےليے اپنا ايك ہي طواف كافي ہے .
اس ليے كہ اس اور سوار كےمابين كوئي فرق نہيں اس ليے اٹھانےوالے اور جسے اٹھايا گيا ہے دونوں كي جانب سے ادا ہوجائے گا. واللہ اعلم .
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اگراٹھانےوالےشخص نےاس كي جانب سےجسےاس نے اٹھايا ہوا كےطواف اور سعي كي نيت كرے تو صحيح قول كےمطابق ادائيگي ہو جائيگي ، كيونكہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كوجس نے بچے كےحج كےمتعلق سوال كيا تھا يہ حكم نہيں ديا كہ وہ اس كي جانب سے عليحدہ طواف كرے اگريہ واجب ہوتا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم ضرور بيان كرتے.
ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ ( 5 / 257 )
اور شيخ ابن جبرين سے سوال كيا گيا توان كا جواب تھا:
جب بچے كااحرام صحيح ہے توپھر اس كا ولي اس كےبارہ ميں مسئول ہوگا وہ اسے احرام كےكپڑےپہنائے اور اس كي جانب سے حج وعمرہ كي نيت كرے اور تلبيہ كہے ، طواف اورسعي ميں اس كا ہاتھ تھامے، اور اگربچہ عاجز ہو يعني چھوٹا ہو يا دودھ پيتا ہو تواسےاٹھانے ميں كوئي حرج نہيں اورصحيح يہي ہے كہ بچے كواٹھانےوالے اور جس نے اٹھا ركھا ہے دونوں كي جانب سے ايك طواف ہي كافي ہے .
ديكھيں: فتاوي الاسلاميۃ ( 2 / 182 )
واللہ اعلم .