جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا فقراء كى مدد كے ليے فيملى فنڈ كميٹى كو زكاۃ دينى جائز ہے

تاریخ اشاعت : 26-04-2014

مشاہدات : 3342

سوال

ميرے پاس پانچ ہزار جنى ( مصرى كرنسى ) ہے، اور اس پر ڈيڑھ برس گزر چكا ہے، تو اس مال ميں كتنى زكاۃ واجب ہے؟
اور جب مال ميں سے پانچ ہزار باقى بچے اور اس پر سال گزر گيا ہو تو اس ميں كتنى زكاۃ واجب ہو گى؟
ہمارے ہاں خاندان ميں فيملى كميٹى كے نام سے ايك تنظيم ہے، اور ميں فقراء خاندان كے ليے كميٹى كو كچھ رقم ادا كرتا ہوں، مجھ سے اس كى ادائيگى ميں تاخير ہو گئى ہے تو كيا ميں اس كى ادائيگى زكاۃ سے كر سكتا ہوں كيونكہ يہ صدقہ جاريہ ميں شمار ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سب تعريفيں اللہ تعالى كے ليے ہيں:

اول:

جس كے پاس اتنى رقم ہو جو زكاۃ كے نصاب تك پہنچتى ہو اور اس پر اسلامى سال بھى گزر جائے تو اس ميں زكاۃ واجب ہو جاتى ہے.

اور كرنسى ميں زكاۃ كا نصاب پچاسى گرام سونے يا پھر ( 595 ) گرام چاندى كى قيمت ميں سے جو قيمت بھى كم ہو اتنى رقم ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 103 - 104 ) اور مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 248 ).

اس بنا پر آپ كے پاس پانچ ہزار كى جو رقم موجود ہے وہ نصاب كو پہنچتى ہے اور اس ميں زكاۃ واجب ہے.

دوم:

اور رہا اس ميں واجب ہونے والى زكاۃ كى مقدار كتنى ہے تو وہ دس كا چوتھاحصہ، يعنى اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) اور پانچ ہزار ميں سے زكاۃ كى مقدار ايك سو پچيس بنتى ہے.

سوم:

جب نصاب كى ملكيت پر ايك اسلامى سال ( ہجرى ) گزر جائے تو فورى طور پر اس كى زكاۃ نكالنى واجب ہو جاتى ہے، اور اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 186 ).

تو اس بنا پر آپ كا زكاۃ كى ادائيگى ميں چھ ماہ كى تاخير كرنا بہت بڑى كوتاہى ہے، اس سے توبہ كرنى واجب ہے، اور جتنى جلدى ہو اس مال كى زكاۃ ضرور ادا كريں.

چہارم:

آپ كا يہ كہنا كہ: ( اور كيا جب رقم ميں سے پانچ ہزار باقى بچ جائے اور اس پر سال بھى گزر جائے تو اس پر زكاۃ واجب ہوتى ہے )

اس كا جواب يہ ہے كہ: جب بھى سال گزرے اور آپ كے پاس نصاب كا مال موجود ہو اس ميں زكاۃ واجب ہو گى، اور جب نصاب سے مال كم ہو جائے تو اس ميں زكاۃ واجب نہيں، اور اگر پھر دوبارہ نصاب پورا ہو جائے تو اس ميں پھر زكاۃ واجب ہو جائے گى، اور سال كا حساب اس وقت سے شروع ہو گا جب نصاب كو پہنچے.

پنجم:

اور رہا مسئلہ فيملى كميٹى كو زكاۃ دينے كا اس كے بارہ ميں گزارش ہے كہ زكاۃ كے آٹھ مصارف ہيں جنہيں اللہ سبحانہ وتعالى نے مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان كيا ہے:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے التوبۃ ( 60 ).

اور فقراء و مساكين رشتہ داروں كو زكاۃ كى ادائيگى كرنا دوسروں كو زكاۃ دينے سے افضل اور بہتر ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسكين پر صدقہ كرنا صرف صدقہ ہى ہے، اور رشتہ دار پر دو ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمى "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2582 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

لہذا فيملى كميٹى ميں زكاۃ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ كميٹى كے خزانچى كو يہ بتا ديں كہ يہ زكاۃ كا مال ہے، تا كہ وہ اسے زكاۃ كے شرعى مصارف ميں خرچ كرے، جو مندرجہ بالا آيت ميں بيان ہوئے ہيں، تا كہ وہ فورى طور پر اسے ادا كرنے كى كوشش كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب