جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا غیرمسلم کے قریب ہونے کے لیےکھانے کی دعوت قبول کرنا جائز ہے

تاریخ اشاعت : 09-06-2004

مشاہدات : 16359

سوال

اسلام کی دعوت تبلیغ کے لیے سب سے پہلےتو کفارسے شخصی تعلقات کا ہونا ضروری ہے تا کہ اجنبیت کا احساس ختم ہو اوردعوت وتبلیغ کی تمھیدقائم ہوسکے ، توکیا اگرمجھے کوئ کافر حرام اشیاء کے علاوہ کھانے یا پینے کی دعوت دیتاہے مثلا :
پنیر ، مچھلی ، چاۓ وغیرہ توکیا میرے لیے اس دعوت کوقبول کرنا اورکھانا جائز ہے ؟
اگرچہ یہاں پراحتمال ہے کہ انہیں برتنوں میں پہلے خنزیر کھایا اورشراب نوشی کی گئ ہولیکن بعد میں انہيں صابون سے دھویا گیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

لوگوں کے مابین تعلقات کی کئ انواع واقسام ہيں ، تواگر مسلمان کی جانب سے کافر کے ساتھ اخوت وبھائ چارہ اور محبت کے تعلقات ہوں تویہ حرام ہيں ایسے تعلقات رکھنا صحیح نہيں بلکہ بعض اوقات تویہ کفر تک جا پہنچتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اللہ تعالی پراورقیامت کے دن پرایمان رکھنے والوں کوآپ اللہ تعالی اوراس کےرسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوۓ ہرگزنہیں پائيں گے اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائ یا ان کے کنبہ وخاندان کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں

یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان لکھ دیا ہے ، اورجن کی تائید اپنی روح سے کی ہے ، اورجنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ تعالی ان اوریہ اللہ تعالی سے راضي و خوش ہیں یہ خدائ لشکر ہے آگاہ رہو بلاشبہ اللہ تعالی کے گروہ والےہی کامیاب ہیں } المجادلۃ ( 22 ) ۔

اس بارہ میں اوربھی بہت سی آیات واحادیث ہیں ۔

اوراگر ان کے تعلقات کا تعلق صرف حلال اشياء کی خریدوفروخت اور حلال کھانے کی دعوت اورمباح اشیاءکے تحفے اورھدیے وغیرہ قبول کرنے تک محدود ہوں اوران کا مسلمان پرکسی قسم کی اثربھی نہ پڑے توپھر اس میں کوئ حرج نہیں اوریہ مباح ہیں ۔

اورکافرکی طرف پیش کیے گۓ حلال کھانے پینے کوتناول کرنا جائز ہے اگرچہ وہ ایسے برتنوں میں ہی پیش کیے جائیں جوپہلے شراب نوشی اورخنزیر کا گوشت کھایا گیا ہو اوراسے اچھی طرح دھوکراس نجاست اورحرام چيزکو زائل کردیا گیا ہو ۔

اورجب یہ دعوت قبول کرنا اس کی دعوت میں ممدو معاون ثابت ہوں تویہ قبول کرنے کے زيادہ لائق ہے اوراس سے اجرو ثواب بھی حاصل ہوگا ۔ .

ماخذ: دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12 / 254 ) مستقل فتوی کمیٹی کا فتوی