جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرے جو رکوع کے وقت سنت رفع الیدین کا مذاق اڑاتاہے؟

تاریخ اشاعت : 23-10-2015

مشاہدات : 7548

سوال

سوال: ہمارے علاقے میں ایک شخص امامت کرواتا ہے وہی جمعہ کے دن خطبہ بھی دیتا ہے، لیکن وہ مقرر کردہ امام بھی نہیں ہے، تاہم وہ ہمارے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کرتا، اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر میں با جماعت نماز ادا کرتا ہے، حالانکہ مسجد اس کے گھر سے صرف 350 میٹردور ہے، اسی طرح عقائد و احادیث کے بارے میں اس کی بہت سی غلطیاں ہیں، مزید برآں وہ دورانِ خطبہ دیندار نمازیوں کے بارے میں زبان درازی بھی کرتا ہے، مثال کے طور پر اس کا کہنا ہے کہ: "نماز میں رفع الیدین کرنے کا وجود ہی نہیں ہے" اس طرح نماز میں رفع الیدین کو مکھیاں اڑانے سے تشبیہ دیتا ہے۔
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے، جیسے کہ بخاری: (753) اور مسلم: (390) میں یہ روایت موجود ہے۔
ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ اس امام کا شرعی حکم بیان کریں، اور کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علمائے کرام کے دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق اذان سننے کے بعد مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا  ہر استطاعت رکھنے والے شخص پر واجب ہے،  اس مسئلے کی تفصیل سوال نمبر: (120) اور (8918) میں موجود ہے۔

رفع الیدین کے بارے میں  اہل علم کا اختلاف مشہور و معروف ہے، تو عین ممکن ہے کہ مذکورہ خطیب  رفع الیدین کے بارے میں دوسرے موقف کا قائل ہو، لہذا اس خطیب کو نصیحت کرنی چاہیے، اور درست بات انہیں بتلانی چاہیے، اس کیلئے حکمت، اور اچھا انداز اپنایا جائے۔

اس شخص کی طرف سے  اپنے گھر  میں نماز پڑھنے  کا عمل  مسجد میں  نماز باجماعت ترک کرنے کیلئے جواز مہیا نہیں کر سکتا، مسجد میں نماز باجماعت کا اہتمام کرنا  اسلام کا شعار ہے، اور اس میں  عظیم   اجر و ثواب    بھی ہے، لہذا اسی  خطیب اور عالم دین  کی طرف سے ایسا کرنا بالکل مناسب نہیں ہے۔

دوم:

نماز میں  رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد، اور پہلے تشہد سے کھڑے ہوتے وقت  رفع الیدین کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ترین  اسانید کیساتھ ثابت ہے،  اور یہی  موقف بے شمار اہل علم کا ہے، مثلاً: امام شافعی، اسحاق، اور دیگر  کا یہی موقف ہے، بلکہ امام مالک سے  بھی یہی  منقول ہے، امام مالک کے بہت سے شاگردوں کا اس پر عمل  بھی ثابت ہے۔

رفع الیدین کے مسئلہ کے بارے میں تفصیلی دلائل سوال نمبر: (21439) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

چنانچہ جو شخص  اس سنت کا مذاق اڑائے، اور اسے مکھیاں اڑانے سے تشبیہ دے، ایسا شخص خطرناک موڑ پر ہے؛ کیونکہ وہ ایسے کام کے بارے میں مذاق اڑا رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، بلکہ اس پر ہمیشہ عمل کرتے تھے،  اس بارے میں اللہ تعالی کافرمان ہے:
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: کیا اللہ ، آیات الہی، اور رسول الہی  کیساتھ  تم مذاق کرتے ہو!؟ [65] اب عذر پیش مت کرو، تم ایمان لانے کے بعد کفر کر چکے ہو۔[التوبة : 65 - 66]

[ان سے کوئی پوچھےکہ ]  رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین میں کیا فرق ہے؟

امام شافعی رحمہ اللہ   سے ان جگہوں میں رفع الیدین کے مطلب کے متعلق استفسار کیا گیا تو  انہوں نے کہا:
"رفع الیدین کا مطلب یہ ہے کہ :  تعظیم الہی، اور اتباعِ سنتِ نبوی  کی جائے، پہلی جگہ رفع الیدین کرنے کا بھی وہی مطلب ہے  جو دیگر جگہوں یعنی رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے  رفع الیدین کرنے کا ہے،  جنہیں  تم تسلیم نہیں کرتے،  مزید برآں [رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین نہ کر کے ] تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عمر سے  مروی شدہ روایت کی مخالفت کی ہے، نیز اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 13 یا 14 افراد نقل کرتے ہیں،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  کئی صحابہ کرام سے متعدد اسانید  کے ذریعے رفع الیدین کا ثبوت ملتا ہے، لہذا جو شخص رفع الیدین نہیں کرتا وہ تارکِ سنت ہے " انتہی
امام شافعی کی اس بات کو ابن قیم رحمہ اللہ نے "إعلام الموقعين" (2/288)  میں نقل کیا ہے، جو کہ امام شافعی کی کتاب "الأم" (7/266) میں بھی  ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ "زاد المعاد" (1/209) میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین جگہوں پر رفع الیدین  تیس [30] سے زیادہ صحابہ کرام بیان کرتے ہیں، جبکہ رفع الیدین   نہ کرنے کے بارے میں کوئی بھی حدیث  ثابت نہیں ہے، بلکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے کوچ کر جانے تک  رفع الیدین کرتے رہے ہیں" انتہی

سوم:

مندرجہ بالا وضاحت  کی بنا پر :
اس خطیب کو  نصیحت کرنی چاہیے، بلکہ  کسی بھی  سنت  کے بارے میں اس طرح مذاق کرنے سے خبردار کرنا چاہیے، اگر  تو بات  مان لے، الحمد للہ! اور اگر پھر بھی اپنی انا  پر اڑا رہے تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، اور کسی دوسری  خطیب کے پیچھے جمعہ ادا کرے۔

آپ نے اس خطیب کی عقدی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اگر آپ تفصیل سے بتاتے تو ان پر حکم لگانا آسان ہوتا۔

اللہ تعالی سب کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب