الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ سبحانہ وتعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرتے ہيں جس نے آپ كو اسلام ميں داخل ہونے كا شرف بخشا، يہ ايسى عظيم نعمت ہے جس كا جتنا بھى شكر كيا جائے وہ بھى كم ہے.
دوم:
مسلمان كو يہ جاننا ضرورى ہے كہ نماز اسلام كا سب سے عظيم عملى ركن ہے، اور مسلمان و كافر كے مابين يہى حد فاصل ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں آيا ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" آدمى اور شرك و كفر كے مابين حد نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
سوم:
نماز باجماعت كے حكم ميں فقھاء كرام كے كئى ايك اقوال ہيں:
ان ميں سب سے زيادہ صحيح قول يہ ہے كہ: نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، اور شرعى دلائل بھى اسى پر دلالت كرتے ہيں.
عطاء بن ابى رباح، حسن بصرى، اوزاعى، ابو ثور رحمہم كا قول يہى ہے اور امام احمد كا ظاہرمذہب يہى ہے، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے " المختصر المزنى " ميں بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" ميں بغير كسى عذر كے نماز باجماعت ترك كرنے كى رخصت نہيں ديتا "
شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے.
اس كے وجوب پر درج ذيل دلائل دلالت كرتے ہيں:
1 - فرمان بارى تعالى ہے:
جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كو تو چاہيے كہ ان كى ايك جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھيار ليے كھڑى ہو، پھر جب يہ سجدہ كر چكيں تو يہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں اور وہ دوسرى جماعت جس نے نماز نہيں پڑھى وہ آجائے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے النساء ( 102 ).
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
خوف كى حالت ميں جماعت كرانے كے متعلق اللہ تعالى كا يہ حكم اس كى دليل ہے كہ حالت امن تو زيادہ واجب ہے.
ديكھيں: الاوسط ( 4 / 135 ).
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس آيت سے استدلال كئى ايك وجوہ كى بنا پر ہے:
پہلى وجہ:
اللہ سبحانہ وتعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو انہيں باجماعت نماز پڑھانے كا حكم ديا، پھر اللہ تعالى نے دوسرے گروہ كے بارہ ميں بھى دوبارہ يہى حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اور چاہيے كہ دوسرا گروہ جس نے نماز ادا نہيں كى آئے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے.
اس ميں دليل ہے كہ جب اللہ تعالى نے پہلے گروہ كے اس فعل كى ادائيگى كى بنا پر دوسرے گروہ سے اسے ساقط نہيں كيا تو يہ فرض عين ہونے كى دليل ہے.
اور اگر نماز باجماعت ادا كرنا سنت ہوتى تو سب عذروں ميں سے خوف كى عذر كى بنا پر يہ بالاولى ساقط ہوتى، اور اگر فرض كفايہ ہوتى تو پھر پہلے گروہ كى ادائيگى كى بنا پر ساقط ہو جاتى، لہذا اس آيت ميں نماز باجماعت فرض ہونے كى دليل پائى جاتى ہے، جو كہ تين وجوہات كى بنا پر ہے:
پہلى: پہلے اللہ تعالى نے اس كا حكم ديا، اور پھر دوبارہ حكم ديا، اور خالت خوف ميں بھى اسے ترك كرنے كى رخصت نہيں دى.
ديكھيں كتاب: الصلاۃ و حكم تاركھا ( 137 - 138 ).
2 - فرمان بارى تعالى ہے:
اور نماز قائم كرو، اور زكاۃ ادا كرتے رہو، اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كرو البقرۃ ( 43 ).
اس آيت سے وجہ استدلال يہ ہے كہ: اللہ سبحانہ وتعالى نے ركوع كرنے كا حكم ديا اور يہ نماز ہے، جسے ركوع سے تعبير اس ليے كيا كيونكہ نماز كے اركان ميں سے ہے، اور نماز كو اس كے اركان اور واجبات سے تعبير كيا جا سكتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے سجود، اور قرآن اورتسبيح كا نام ديا ہے تو پھر ارشاد ربانى ركوع كرنے والوں كے ساتھ كا كوئى اور فائدہ ہونا چاہيے اور يہ نمازيوں كى جماعت كے ساتھ كے علاوہ كچھ نہيں ہو سكتا، اور معيت اس كا فائدہ ديتى ہے.
جب يہ ثابت ہو گيا تو امر صفت يا حال كے ساتھ مقيد ہے، جب تك اس صفت يا حالت كے مطابق نہيں كيا جاتا اس پر عمل نہيں ہو گا؛ اگر يہ كہا جائے كہ يہ اس فرمان بارى تعالى سے ختم ہو جاتا ہے:
اے مريم تو اپنے رب كى اطاعت كر اور سجدہ كراور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كر آل عمران ( 43 ).
عورت پر نماز باجماعت ادا كرنا واجب نہيں، كہا گيا ہے كہ: يہ آيت ہر عورت كے ليے نہيں بلكہ مريم كو يہ خاص حكم ديا گيا، بخلاف اس فرمان ہے:
اور نماز قائم كرو، اور زكاۃ ادا كرو، اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كرو.
مريم كو وہ خاصيت حاصل تھى جو دوسرى عورتوں كو نہيں؛ كيونكہ ان كى والدہ نے نذر مانى تھى كہ وہ اللہ تعالى اور اس كى عبادت كے ليے آزاد ہے اور مسجد ميں ہى رہے گى، وہاں سے نہيں نكلے گى، لہذا حكم ديا گيا كہ وہ اپنے اہل كے ساتھ نماز ادا كرے، اور جب اللہ تعالى نے سب عورتوں پر اسے چن ليا اور پاك كيا تو اسے اپنى طاعت كا حكم ديا جو باقى عورتوں كے علاوہ صرف اس كے ساتھ ہى خاص تھا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جب فرشتوں نے كہا اے مريم يقينا اللہ تعالى نے تجھے چن اور پاك كيا اور جہان كى عورتوں پر چن ليا، اے مريم اپنے رب كى اطاعت كر اور سجد كر، اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كر آل عمران ( 42 - 43 ).
اگر يہ كہا جائے كہ: ركوع كرنے والوں كےساتھ ركوع كريں يہ ان كى ركوع كى حالت ميں ان كے ساتھ ركوع كرنے كے وجوب پر دلالت نہيں كرتا بلكہ جس طرح انہوں نے كيا اسى طرح كا عمل كرنے پر دلالت كرتا، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور سچائى اختيار كرنے والوں كے ساتھ ہو جاؤ التوبۃ ( 119 ).
چنانچہ معيت فعل ميں مشاركت كا تقاضا كرتى ہے، اس سے اس ميں مقارنہ لازم نہيں آتا.
اس كا جواب يہ ہے كہ: حقيقت ميں مابعد كى ماقبل كے ساتھ مصاحبت ہو تو معيت ہوتى ہے، اور يہ مصاحبت مشاركت سے زائد امر كا فائدہ ديتى ہے، اور خاص كر نماز ميں.
اور اگر يہ كہا جائے كہ: جماعت كے ساتھ نماز ادا كرو، يا ميں نے جماعت كے ساتھ نماز ادا كى، تو اس سے ان كا جماعت ميں اكٹھے ہونے كے علاوہ كچھ اور ثابت نہيں ہوتا.
ديكھيں: الصلاۃ و حكم تاركھا ( 139 - 141 ).
3 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ ايندھن جمع كرنے كا حكم دوں اور وہ جمع ہو جائے تو پھر ميں نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں ان مردوں كے پيچھے جاؤں اور انہيں گھروں سميت جلا ڈالوں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر كسى كو معلوم ہو جائے كہ اسے موٹى سے گوشت والى ہڈى حاصل ہو گى، يا پھر اسے اچھے سے دو پائے كے كھر حاصل ہونگے تو وہ عشاء كى نماز ميں حاضر ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 618) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).
العرق: ہڈى.
المرماۃ: بكرى كے پائے ميں دونوں كھروں كے درميان گوشت.
الظلف: كھر.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى ليكر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 626 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نماز سے پيچھے رہنے والے لوگوں كے گھروں كو جلانے كا اہتمام كرنا نماز باجماعت واجب ہونے كا سب سے بڑا بيان ہے، كيونكہ يہ جائز نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى مندوب اور اس چيز سے پيچھے رہنے والے كو جلا كر راكھ كريں جو فرض نہيں.
ديكھيں: الاوسط ( 4 / 134 ).
صنعانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث نماز باجماعت فرض ہونے كى دليل ہے نہ كہ فرض كفايہ كى كيونكہ فرض كفايہ كى صورت ميں جب كچھ لوگ ادا كرليں تو دوسرے سزا كے مستحق نہيں ٹھرتے، اور كسى واجب اور فرض فعل كو ترك كرنے يا پھر حرام فعل كو سرانجام دينے والے كو ہى سزا ہوتى ہے.
ديكھيں: سبل السلام ( 2 / 18 - 19 ).
4 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" ايك نابينا ( يہ ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ تھے ) شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى شخص نہيں، انہوں نے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت طلب كى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت دے دى، اور جب وہ جانے كے ليے پلٹا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمانے لگے:
كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "
اور ابو داود حديث نمبر ( 552 ) اور ابن ماجہ حديث نمبر ( 782 ) كے الفاظ يہ ہيں:
" تيرے ليے رخصت نہيں "
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كى سند كے بارہ ميں صحيح يا حسن كہا ہے.
ديكھيں: المجموع ( 4 / 164 ).
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب نابينا شخص كو رخصت نہيں، تو پھر آنكھوں والے شخص كو بالاولى رخصت نہيں ہو گى.
ديكھيں: الاوسط ( 4 / 134 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نابينا شخص جسے مسجد ميں لانے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ تھا رخصت نہيں دى تو پھر اس كے علاوہ كسى دوسرے كے ليے بالاولى رخصت نہيں.
ديكھيں: المغنى قدامہ ( 2 / 3 ).
5 - ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:
( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )
اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سنن الھدى كى تعليم دى اور جس مسجد ميں اذان ہوتى ہے وہاں نماز ادا كرنا سنن ھدى ميں شامل ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
وجہ دلالت يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز باجماعت سے پيچھے رہنے كو ان مفافقين كى علامت قرار ديا جن كا نفاق معلوم ہو؛ اور كسى مستحب فعل كا ترك اور كسى مكروہ فعل كو سرانجام دينا نفاق كى علامت نہيں.
اور جو شخص سنت ميں علامات نفاق تلاش كرے تو اسے يہ علامات كسى فريضہ كے ترك كرنے، يا پھر كسى حرام فعل كے ارتكاب ميں مليں گى، اور اس معنى كى تاكيد اس طرح فرمائى:
" جسے يہ اچھا لگتا ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو وہ ان نمازوں كى ادائيگى وہاں كرے جہاں اذان ہوتى ہے "
اور اسے ترك كر كے گھر ميں نماز ادا كرنے والے كو پچھے رہنے والا اور سنت كے تارك كا نام ديا، يہ سنت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا وہ طريقہ ہے جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عمل پيرا تھے، اور ان كى وہ شريعت ہے جو انہوں نے اپنى امت كے ليے مشروع كى.
اس سے وہ سنت مراد نہيں كہ جو چاہے اس پر عمل كرلے، اور جو چاہے اسے ترك كردے؛ اور اگر وہ اسے ترك كردے توگمراہ نہيں ہوگا، اور نہ ہى يہ نفاق ى علامات ميں شامل ہوں، جيسا كہ چاشت كى نماز، اور قيام الليل، اور سوموار اور جمعرات كا روزہ ترك كرنا.
ديكھيں: الصلاۃ و حكم تاركھا صفحہ ( 146 - 147 ).
6 - اجماع صحابہ:
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صحابہ كرام كا اجماع ہم اس كى نصوص بيان كرتے ہيں:
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا قول گزر چكا ہے كہ: ہم ديكھتے تھے كہ اس سے پيچھے رہنے والا صرف معلوم نفاق والا منافق ہى ہوتا.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
جس نے اذان سنى اور بغير كسى عذر كے اسے قبول نہ كيا يعنى نماز كے ليے نہ آيا تو اس كى نماز ہى نہيں.
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
جس نے اذان سنى اور بغير عذر كے اسے قبول نہ كيا يعنى نماز كے ليے نہ آيا تو اس كى نماز ہى نہيں.
على رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
مسجد كے پڑوسى كى مسجد كے علاوہ كہيں نماز ہى نہيں ہوتى، ان سے كہا گيا: مسجد كا پڑوسى كون ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جس نے اذن سنى.
حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
جس نے اذان سنى اور بغير كسى عذر كے نماز كے ليے نہ آيا تو اس كى نماز سر سے اوپر نہيں جاتى.
على رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے:
مسجد كے پڑوسيوں ميں سے جس نے بھى اذان سنى اور وہ صحيح و تندرست ہو تو بغير كسى عذر كے اس كى نماز نہيں.
الصلاۃ و حكم تاركھا ( 153 ).
دلائل تو بہت ہيں ليكن ہم انہيں پر اكتفا كرتے ہيں، مزيد تفصيل كے ليے آپ حافظ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى كتاب: " الصلاۃ و حكم تاركھا " كا مطالعہ كر سكتے ہيں، اس ميں بہت تفصيل اور فوائد ہيں.
اور اس كے علاوہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا " وجوب اداء الصلاۃ فى جماعۃ " كے موضوع پر رسالہ بھى مفيد ہے.
واللہ اعلم .