جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دوسرى بيوى كے سبب مشكلات اور بيٹى كے متعلق خدشات

تاریخ اشاعت : 27-07-2009

مشاہدات : 8336

سوال

برائے مہربانى آپ درج ذيل مسئلہ ميں شريعت اسلاميہ كے مطابق راہنمائى فرمائيں:

اگر دوسرى بيوى كاغذات ميں جعل سازى كر كے اپنے خاوند كے خلاف مہر اور اخراجات كا مسئلہ كھڑا كرے .. اور اس كى غيرموجودگى ميں بداخلاقى كرتى ہو اور وہ اپنى والدہ كے ساتھ رہ رہى ہے، ميں نے صلح كى بہت كوشش كى ہے ليكن اس كا كوئى فائدہ نہ ہوا، اب اگر ميں نے اسے طلاق دى تو يہ تيسرى طلاق ہو گى، ليكن اسے طلاق كى كوئى پرواہ نہيں وہ مال كے علاوہ كچھ نہيں چاہتى.

اس نے عدالت ميں طلاق كا مقدمہ كر ركھا ہے تو كيا يہ خلع شمار ہو گا، اور اگر ايسا نہيں تو بچى كى پرورش كا ذمہ دار كون ہے ؟

ميں اس كى غطياں اور كوتاہياں بيان نہيں كرنا چاہتا ليكن كچھ حقائق بيان ضرور كرونگا، كوئى اہتمام نہيں كرتى اور اچھے طريقہ سے نہيں رہتى جس كى وجہ سے بچى كى تربيت پر اثر پڑے گا، اس كى تعليم بھى كوئى نہيں ہے، اور مستقبل ميں اس كا يہ طريقہ بچى پر اثرانداز ہو گا.

اس سے بھى اہم چيز يہ ہے كہ اس نے مجھے ٹيلى فون پر بتايا كہ وہ بچى كى شخصيت كو برا بنا كر ركھ دے گى، مجھے يہ بتائيں كہ بچى كى پرورش كرنا كس پر واجب ہوتى ہے تا كہ ہم بچى كو غلط ماحول سے بچا سكيں ؟

حالانكہ وہ ملازمت بھى كرتى اور مال كماتى ہے، ليكن زندگى ميں يہ مال ہى ہر كچھ نہيں ہوتا، زندگى كا معنى تو اچھى عادات و تربيت اور اخلاقيات و دين كا قوى ہونے كا نام ہے، ان اشياء كو مدنظر ركھتے ہوئے بچى كى والدہ ميں يہ چيزيں قوى اور مضبوط نہيں.

اور جب وہ كام پر جاتى ہے تو بچى كو نانى سنبھالتى ہے اور اس كى ديكھ بھال كرتى ہے، اور نانى بھى جاہل ہے پڑھى لكھى نہيں، ميں نے اچانك ايك بار اس سے بچى كے متعلق بہت برے الفاظ سنے تو وہ اس كى تربيت كس طرح اچھى كر سكتى ہے ؟

اسلامى تعليمات كے مطابق كيا خاندان ميں والد كے علاوہ كوئى اور شخص چھوٹے بچے كى ديكھ بھال اور تربيت كر سكتا ہے ؟

اور وہ شخص كون ہے جس كى عادات اور دين اعلى ہو، اور وہ شخص كون ہو گا جس كى معاشرے ميں زيادہ ذمہ دارياں ہيں ؟

ميرے خيال ميں تو ميرى بچى كو ايك نيك و صالح انسان وہى بنا سكتى ہے جو عورت خود بھى اچھے اخلاق اور عادات كى مالك ہو گى اور دين كا شغف ركھتى ہو.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل ميں طلاق اچھى چيز نہيں بلكہ ناپسند ہے اس كى دليل اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اپنے بيويوں سے ايلاء كريں ( اپنى بيويوں سے تعلق نہ ركھنے كى قسم اٹھائيں ) وہ چار ماہ تك انتظار كريں، پھراگر وہ لوٹ آئيں تو اللہ تعالى بھى بخشنے والا مہربان ہے ، اور اگر وہ طلاق كا قصد كر ليں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے البقرۃ ( 226 – 227 ).

تو اس آيت ميں اللہ تعالى نے پہلے غفور رحيم كہا ہے، اور جب طلاق كى بارى آئى تو فرمايا: وہ سننے والا جاننے والا ہے، اور اس ميں كچھ دھمكى پائى جاتى ہے، تو يہ اس كى دليل ہے كہ طلاق اللہ كے ہاں ناپسند ہے.

ليكن بعض اوقات حالات ايسے پيدا ہو سكتے ہيں جس كى وجہ سے طلاق ضرورى ہو جاتى ہے، بلكہ بعض اوقات تو طلاق كے وجوب تك بات جا پہنچتى ہے، ہمارے عزيز بھائى جس طرح كى حالت آپ نے بيان كى ہے اس طرح كى حالت ميں ہو سكتا ہے طلاق ہى مناسب حل ہو، كيونكہ يہ نہيں سمجھا جا سكتا كہ ـ جيسا كہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے ـ بيوى خاوند كے ساتھ اس طرح كى بدسلوكى كرے، كيونكہ ہو سكتا ہے بعض اوقات بيوى خاوند كے ساتھ غلطى كا ارتكاب كر بيٹھے، ليكن خاوند كى ايك كے بعد دوسرى بار ناشكرى اور نافرمانى كرے يہ بہت عجيب ہے.

ليكن طلاق سے قبل اصلاح كى كوشش ضرور كريں، اور عورت پر صبر كريں، كيونكہ اگر اس ميں كچھ بداخلاقى ہے تو آپ كو اس ميں كچھ اچھى صفات بھى مليں گى، اور اخلاق حسنہ بھى ديكھيں گے جو اس كى اس بداخلاقى كو اچھائيوں اور اخلاق حسنہ كے مقابلہ ميں برداشت كر ليں.

اور اگر آپ مسئلہ كو حل كرنے كے ليے كسى رشتہ دار كو اس ميں ڈال سكتے ہيں تو اس مسكين بچى پر رحم كرتے ہوئے ايسا ضرور كريں ـ معاملہ چاہے كتنا بھى بڑھ جائے ـ يہ جدائى اور عليحدگى اور خاندان كى بربادى سے اصلاح ہى بہتر ہے.

اور اگر اس كا آخرى حل طلاق ہى ہو اور آپ طلاق كے علاوہ باقى سارے حل استعمال كر چكے ہوں تو پھر آپ پہلے استخارہ كريں اور پھر مشورہ كرنے كے بعد اللہ پر توكل كريں.

اور اس نے عدالت ميں جو مقدمہ دائر كر ركھا ہے ہو سكتا ہے وہ خاوند سے طلاق يا خلع لينے كے ليے ہو، يہ حالت پر منحصر ہےن اگر تو وہ خاوند كو طلاق كے بدلے مال ادا كرتى ہے يا مہر واپس كرتى ہے تو يہ خلع شمار ہو گا، اور اگر كچھ نہيں ديتى اور طلاق ہو جائے تو يہ طلاق ہو گى.

رہا مسئلہ پرورش كا تو اس ميں اصل ماں ہى زيادہ حقدار ہے جب تك اس ميں كوئى مانع نہ ہو، اور اگر كوئى مانع پايا جائے مثلا ماں كسى اور شخص سے شادى كر لے، يا ماں برے اخلاق كى مالكہ ہو تو اس صورت ميں جمہور علماء كے ہاں حق پرورش ماں سے منتقل ہو كر نانى كو مل جائيگا.

اور اگر نانى بھى ايسى ہى ہو تو يہ باپ كو مل جائيگا، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے تنازع و اختلاف كے وقت يہ اختيار كيا ہے كہ نانى كى بجائے باپ كو منتقل ہو گا كيونكہ يہ بچے كے زيادہ قريب ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى زاد المستقنع ميں پرورش كے مسئلہ كى شرح كرتے ہوئے اس كو راجح كہا ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر (5234 ) اور (9463 ) اور (8189 ) اور (21516 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب