منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا ٹھنڈك حاصل كرنے كے ليے غسل كرنے والے پر بھى وضوء كرنا لازم ہے ؟

سوال

اگر مسلمان عام غسل كرے اور وضوء نہ كرے تو كيا وہ اسى طرح نماز ادا كر سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے پيروى كرتے ہوئے غسل سے قبل وضوء كرنا مستحب ہے.

اگر غسل حدث اكبر مثلا جنابت يا حيض اور نفاس سے كيا جائے اور غسل كرنے والا شخص كلى اور ناك ميں پانى چڑھانے كے بعد پورے جسم پر پانى بہاتا ہے تو يہ وضوء كے ليے كافى ہو گا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل كرنے كے بعد وضوء نہيں كيا كرتے تھے.

اس كى تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 5032 ) كے جواب ميں ملے گى آپ اس كا مطالعہ كريں.

ليكن اگر ٹھنڈك كے حصول اور گرمى اور ميل كچيل دور كرنے كے ليے غسل كيا جائے تو يہ غسل وضوء كے ليے كافى نہيں ہوگا.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا غسل جنابت وضوء سے كفائت كر جائيگا ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اگر انسان جنبى ہو اور غسل كرے تو يہ غسل وضوء كے ليے كفائت كر جائےگا، كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر تم جنبى ہو تو طہارت اختيار كرو .

اور غسل كے بعد اسے دوبارہ وضوء كرنا ضرورى نہيں، ليكن اگر نواقض وضوء ميں سے كوئى چيز حاصل ہو اور غسل كے بعد وضوء ٹوٹ گيا تو اسے دوبارہ وضوء كرنا ہوگا، ليكن اگر وضوء نہيں ٹوٹا تو جنابت كا غسل ہى وضوء سے كفائت كر ےگا، چاہے اس نے غسل سے قبل وضوء كيا ہو يا نہ كيا ہو، ليكن كلى اور ناك ميں پانى چڑھانے كا خيال ركھنا ہوگا، كيونكہ وضوء اور غسل ميں كلى كرنا ضرورى ہے" انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 180 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

كيا غير مشروع غسل وضوء كے ليے كفائت كر جائيگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" غير مشروع غسل وضوء كے ليے كفائت نہيں كرتا، كيونكہ يہ عبادت نہين " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 181 ).

شيخ رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

كيا نہانا وضوء سے كفائت كر جائيگا ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اگر تو جنابت كى بنا پر نہايا جائے تو يہ وضوء سے كفائت كرےگا، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم جنبى ہو تو طہارت اختيار كرو .

چنانچہ اگر انسان جنبى ہو اور كسى تالاب يا نہر وغيرہ ميں غوطہ لگائے اور اس سے جنابت ختم كرنے كى نيت كرتے ہوئے كلى كرے اور ناك ميں پانى چڑھائے تو اس سے حدث اصغر اور اكبر دونوں ہى دور ہو جائينگے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے جنابت كے وقت ہم پر طہارت اختيار كرنى واجب كى ہے، يعنى ہم غسل كرتے ہوئے پورے جسم پر پانى ڈاليں.

اگرچہ جنابت كا غسل كرنے والے كے ليے پہلے وضوء كرنا افضل اور بہتر ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى شرمگاہ دھونے كے بعد دونوں ہاتھ دھوتے اور پھر نماز كى طرح وضوء فرماتے، پھر اس كے بعد سر پر پانى بہاتے، اور جب جب يہ گمان ہو جاتا كہ ان كى جلد تر ہو گئى ہے تو اس پر تين بار پانى بہاتے اور پھر باقى سارا جسم دھوتے تھے.

ليكن اگر صفائى يا ٹھنڈك كے حصول كے ليے نہايا جائے تو يہ وضوء سے كفائت نہيں كرےگا؛ كيونكہ يہ عبادت ميں شامل نہيں، بلكہ يہ عادى اور عام معاملات ميں شامل ہوتا ہے، اگرچہ شريعت اسلاميہ نے صفائى اور نظافت كا حكم ديا ہے، ليكن يہ اس طرح نہيں، بلكہ مطلقا صفائى ہے جو كسى بھى چيز ميں صفائى حاصل ہو.

بہر حال اگر تو ٹھنڈك يا صفائى كے حصول كے ليے نہايا جائے تو يہ وضوء كے ليے كافى نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 182 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب