سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اگربیوی خاوند کومہر معاف کردے

تاریخ اشاعت : 06-01-2004

مشاہدات : 11833

سوال

ایک لڑکی کے والد نے فوری طور پر تو قرآن مجید بطور مہر طلب کیا اوربعد میں بیس ہزار ڈالر دینا ہونگے ، شادی کرنے والا بھائي اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، اوربیوی اس رقم کومعاف کرنا چاہتی ہے توکیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
اوراگر بیوی اس رقم کومعاف نہ کرے اورکچھ مدت بعد اسے طلاق ہوجائے توکیا خاوند پر طلاق کے بعد یہ رقم ادا کرنی واجب ہوگي ؟
کیا اس بھائي کے لیے جائز ہے کہ اتنا مہر دینے کا وعدہ تو کرلے لیکن وہ اس کی ملکیت میں نہ ہو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


بیوی پر اس میں کوئي حرج نہیں کہ وہ اپنا حق مہر معاف کردے اس کی دلیل مندرجہ ذيل آیت میں ہے :

اگر وہ تمہیں راضي خوش اپنے مہرمیں سے کچھ معاف کردیں توتم اسے راضي خوشی کھا لو النساء

دخول کے بعد طلاق کی صورت میں بیوی اس مہر مؤ‎جل کی حقدار ہوگی چاہے وہ طلاق کچھ ہی عرصہ بعد ہوجائے ، لیکن خلع کی صورت میں وہ خاوند اس مال کے بدلے میں اسے خلع دے کر جدا کرے تواس میں کوئي حرج نہیں لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اگر اس کا کوئي شرعی سبب ہو تو پھر خلع ہوسکتا ہے صرف مال حاصل کرنے کے لیے نہی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورتم انہیں اس لیے نہ روک رکھو کہ جوتم نے انہيں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو ، ہاں یہ اوربات ہے کہ وہ کوئی کھلی اورواضح بے حیائي کریں النساء ( 19 ) ۔

اورخاوند کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کہے کہ میں اتنا مہر دونگا چاہے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، لیکن اسے یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ بعد میں دے گا ابھی نہیں ، اوریہ اس کے ذمہ قرض شمار ہوگا ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد