الحمد للہ.
علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں اگرچہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ ايسا كرنا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قيام الليل كى نماز اكيلے ادا كر رہے تھے تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما آئے ا ور ان كے ساتھ نماز ادا كى تو اس حالت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم امام اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما مقتدى بن گئے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منفرد سے امام كى نيت ميں منتقل ہوگئے، جو كہ اس كے جواز كى دليل ہے.
اور نفلى اور فرضى ميں يہ معاملہ برابر ہے، الا يہ كہ كوئى دليل اس كى تخصيص كر دے، يہ قول دوسرے سے زيادہ صحيح ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے، اور ان شاء اللہ يہى راجح ہے.