جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نماز ميں بھولنے اور غلطى كرنے كا كيا حكم ہے ؟

سوال

انسان كےارادہ كے بغير دوران نماز ذہن منتشر ہونے اور بھولنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب نماز كا وقت ہو جائے تو انسان كے ليے ہر قسم كے دنياوى مشغولات اور كام كاج سے فارغ ہونا ضرورى ہے، تا كہ اس كا ذہن اور سوچ حسب استطاعت مكمل يكسوئى كے ساتھ اللہ تعالى كى عبادت كى طرف متوجہ ہو جائے، چنانچہ جب وہ طہارت كر كے نماز كے ليے كھڑا ہو تو نماز ميں خشوع و خضوع كے ساتھ اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد كى قرآت كرتے يا پھر سنتے ہوئے كھڑا ہو، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرے، اور نماز ميں جو دعائيں اور اذكار پڑھ رہا ہے اس كى معانى كو سمجھے، اور اپنے آپ كو شيطان اور اس كے وسوسوں كے سپرد مت كرے.

بلكہ جب ايسا ہو تو اپنى نماز كى طرف متوجہ ہو اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھے، اس كى دليل ابو العلاء بن شخير كى درج ذيل حديث ہے:

علاء بن شخير بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم شيطان ميرے اور ميرى نماز اور قرآت كے مابين حائل ہو جاتا ہے؟ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ شيطان ہے جسے خنزب كہتے ہيں، جب تمہيں اس كا احساس ہو تو تم اس سے اللہ كى پناہ طلب كرو ( اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھو ) اور اپنى بائيں جانب تين بار تھو تھو كرو "

وہ كہتے ہيں: ميں نے جب ايسا كيا تو اللہ تعالى نے شيطان كو مجھ سے دور كر ديا "

مسند احمد ( 4 / 216 ) صحيح مسلم ( 4 / 1728 - 1729 ) مصنف عبد الرزاق ( 2 / 85، 499 ) حديث نمبر ( 2582 , 4220 ) ابن ابى شيبۃ ( 7 / 419 ، 10 / 353 ) اور ابن سنى نے عمل اليوم والليۃ صفحہ نمبر ( 272 ) حديث نمبر ( 577 ).

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 40 )