اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رياض شہر كا باسى جدہ ميں زير تعليم ہے اگر امتحانات كے بعد عمرہ كرنا چاہے تو احرام كہاں سے باندھے ؟

تاریخ اشاعت : 18-12-2006

مشاہدات : 6716

سوال

ميں رياض شہر ميں ملازم ہوں اوراس وقت جدہ ميں انتسابى طور پر زير تعليم ہوں، رياض سے ہى ميرى عمرہ كرنے كى نيت تھى ليكن امتحانات سے فارغ ہو كر، تو كيا مجھے جدہ سے سيل كبير جا كر احرام باندھنا ہو گا يا كہ ميں جدہ سے ہى احرام باندھ سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج اور عمرہ كا ارادہ ركھتے ہوئے ميقات سے گزرنے والے شخص كے ليے ميقات سے احرام باندھنا واجب ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 33798 ) اور ( 36646 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

آپ كے ليے جدہ ميں اپنى اقامت ختم ہونے تك احرام باندھنے ميں تاخير كرنى جائز ہے، اور امتحانات كے بعد آپ ميقات پر جا كر احرام باندھ ليں ليكن آپ كے ليے جدہ سے احرام باندھنا جائز نہيں.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك طالب علم جدہ ميں زير تعليم ہے، اور اس كى رہائش قنفذہ شہر جو كہ جدہ سے تين سو پچاس كلو ميٹر دور ہے، اور جمعرات اور جمعہ چھٹى ميں وہ اپنے شہر قنفذہ چلا جاتا ہے، اگر وہ عمرہ كرنا چاہے تو احرام كہاں سے باندھے گا ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر وہ عمرہ كى نيت جدہ ميں رہتے ہوئے كرے تو جدہ سے ہى احرام باندھےگا، ليكن اگر آپ نے قنفذہ سے ہى عمرہ كى نيت كى تو پھر آپ اہل يمن كے ميقات سے عمرہ كا احرام باندھيں گے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 136 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

ايك شخص اپنے علاقے سے جدہ گيا اور پھر عمرہ كا ارادہ كرے تو كيا وہ جدہ سے احرام باندھ سكتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

يہ معاملہ دو حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

انسان عمرہ كى نيت كے بغير ہى جدہ گيا، ليكن بعد ميں اس كے ذہن ميں عمرہ كرنے كا خيال پيدا ہوا تو وہ جدہ سے ہى احرام باندھ سكتا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ عنہما كى حديث جس ميں مواقيت كا ذكر ہے ميں فرمان ہے:

" اور جو اس كے اندر ہو تو وہ وہيں سے احرام باندھے جہاں سے اس نے نيت كى، حتى كہ اہل مكہ مكہ سے ہى باندھيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1524 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1181)

دوسرى حالت:

يہ كہ انسان اپنے علاقے سے جدہ گيا تو اس كى نيت ميں عمرہ كرنے كا عزم تھا، تو اس حالت ميں اسے اس ميقات سے احرام باندھنا ہوگا جس سے وہ گزر رہا ہے، اور اس شخص كے ليے جدہ سے احرام باندھنا جائز نہيں؛ كيونكہ وہ ميقات كے اندر ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميقات مقرر كرتے ہوئے فرمايا تھا:

" يہ ميقات ان كے رہنے والوں كے ليے ہيں، اور ان كے ليے بھى جو حج اور عمرہ كى نيت سے ان ميقات سے گزريں "

اور اگر وہ جدہ سے احرام باندھ كر مكہ جائے تو اہل علم كے ہاں اس كے ذمہ بطور فديہ دم لازم آتا ہے جو مكہ ميں ذبح كر كے مكہ كے فقراء پر تقسيم كيا جائےگا، اوراس كا عمرہ صحيح ہے.

اور اگر اس نے جدہ پہنچنے سے قبل عمرہ كى نيت كى ركھى تھى اور جدہ پہنچ كر اس نے احرام نہيں باندھا تو وہ ميقات پر واپس جائے اور وہاں سے احرام باندھ لے تو اس پر كچھ نہيں "

واللہ اعلم، انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 291 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى دريافت كيا گيا:

رياض كے كچھ افراد نے حج كا عزم كيا جنہيں جدہ ائرپورٹ پر ڈيوٹى دى گئى ان ميں سے بعض نے حج افراد اور بعض نے تمتع اور كچھ نے حج قران كى نيت كى، ليكن ان سب نے ميقات بغير احرام باندھے ہى كراس كر ليا كيونكہ ان كى ملازمت شروع ہونے اور موسم حج ميں ايك لمبا وقت تقريبا ايك ماہ باقى تھا تو كيا ان سب پر يا بعض پر ان كى نيت كے حساب سے دم لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" حج تمتع كا ارادہ ركھنے والے شخص كا ميقات سےاحرم نہ باندھنا غلطى ہے، كيونكہ يہ حكمت كے خلاف ہے؛ كيونكہ اس كے ليے بہتر يہى تھا كہ وہ ميقات سے احرام باندھ كر عمرہ كر كے جدہ چلا جاتا.

اور جو شخص حج قران اور حج افراد كرنے كا ارادہ ركھتا ہے صحيح ہے كہ اس كے ليے كچھ مشكل ہوگى كہ وہ پورا ايك ماہ حالت احرام ميں رہے، اور جب حج كا وقت آئے تو جس ميقات سے وہ آئے تھے وہاں سے جا كر احرام باندھيں.

اگر فرض كريں كہ ايسا كرنا ممكن نہيں اور وہ ميقات پر نہيں جا سكتے تو پھر وہ جدہ سے ہى احرام باندھ ليں، ليكن اہل علم كے ہاں انہيں دم دينے كے ليے ايك بكرا ذبح كرنا ہوگا، ذبح كر كے وہ مكہ كے فقراء ميں تقسيم كرديں، اور حج تمتع بھى ايسے ہى ہے كہ اگر انہوں نے ابھى تك احرام نہيں باندھا، چنانچہ اگر وہ عمرہ كرنا چاہيں تو وہ سيل ( جو رياض والوں كا ميقات ہے ) جا كر احرام باندھ ليں اور عمرہ كر كے احرام كھول كر حلال ہو جائيں "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 291 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب