جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

ایک سے زائد شادی کا حکم اور زائد شادی کی شرط

سوال

ایک سے زائد شادی کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے مردوں کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
 ترجمہ: اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری زیر ملکیت لونڈی ۔ یہ زیادہ قریب ہے ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔[النساء: 3]

تو یہ آیت کریمہ مرد کے لیے ایک سے زائد شادی کی اجازت پر واضح نص ہے، اس لیے مرد ایک وقت میں اسلامی شریعت کے مطابق ایک یا دو یا تین یا چار عورتوں سے شادی کر سکتا ہے، اس سے زیادہ بیک وقت شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے، مفسرین اور فقہائے کرام کا یہی موقف ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ایک سے زائد شادی کرنے کی کچھ شرائط ہیں:

1-عدل کرنا
اس شرط کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ترجمہ: اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم عدل نہیں کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو[النساء: 3]
تو یہ آیت کریمہ واضح طور پر بتلا رہی ہے کہ ایک سے زائد شادیوں کے لیے عدل پہلی شرط ہے، چنانچہ اگر کسی مرد کو خدشہ ہو کہ ایک سے زیادہ شادی کرنے پر بیویوں میں عدل نہیں کر سکے گا تو پھر اس کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنا منع ہے۔ یہاں عدل سے مراد یہ ہے کہ نفقہ، لباس اور رات گزارنے کی باری جیسی مادی چیزوں میں عدل ہے کہ جو انسان کی استطاعت اور قدرت میں ہوتی ہیں۔

جبکہ محبت وغیرہ میں عدل کے متعلق مرد کو مکلف نہیں بنایا گیا، نہ ہی مرد سے سب بیویوں کے ساتھ برابر محبت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے؛ کیونکہ مرد میں اس کی استطاعت ہی نہیں ہے، یہی مفہوم اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ: وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ترجمہ: اور تم ہر گز استطاعت نہیں رکھتے کہ بھر پور کوشش کے باوجود بیویوں میں عدل کر سکو۔[النساء: 129] یعنی قلبی محبت میں تم بیویوں کے ساتھ عدل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔

2-بیویوں کے اخراجات پورے کرنے کی طاقت:
اس شرط کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ترجمہ: اور جو لوگ نکاح کے اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ پاک دامنی اختیار کریں ، تا آں کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے۔[النور: 33] تو اس آیت کریمہ میں واضح طور پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو شادی کے قابل تو ہے لیکن اس کے پاس وسائل نہیں ہیں ، نکاح کرنا اس کے لیے مشکل ہے تو وہ پاک دامنی اپنائے۔ وسائل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: حق مہر کے لیے کچھ نہ ہو، نہ ہی بیوی کے اخراجات اٹھانے کی اس میں صلاحیت ہو۔"
"المفصل في أحكام المرأة " جلد: 6 صفحہ: 286

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک سے زائد شادیاں صرف ایک شادی پر اکتفا کرنے سے افضل ہے۔ چنانچہ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
شادی کے بارے میں بنیادی اصول کیا ہے؟ ایک یا متعدد؟

تو انہوں نے جواب میں کہا:
"اس بارے میں بنیادی اصول متعدد ہے، لیکن ایسے شخص کے لیے جو استطاعت بھی رکھتا ہو اور بیویوں کے ساتھ زیادتی کا خدشہ بھی نہ ہو؛ کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں کہ ایک تو اپنی عفت اور پاکدامنی قائم رہتی ہے اور جن سے شادی کرے گا ان کا بھی بھلا ہو گا ، افزائش نسل زیادہ ہو گی، اور اللہ تعالی کی بندگی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
 ترجمہ: اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری زیر ملکیت لونڈی ۔ یہ زیادہ قریب ہے ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔[النساء: 3]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
 ترجمہ: یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ -صلی اللہ علیہ و سلم – بہترین عملی نمونہ ہیں۔[الاحزاب: 21] اسی طرح جب کچھ صحابہ کرام نے کہا کہ : وہ گوشت نہیں کھائے گا، اور دوسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا نیند نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا، اور چوتھے نے کہا کہ میں شادی نہیں کروں گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات پہنچی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے سامنے خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر کہا: (تم میں سے لوگ ہیں جنہوں نے فلاں ، فلاں باتیں کی ہیں، تو غور سے سنو! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں، اور تم سے زیادہ تقوی رکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے میں نے شادی بھی کی ہے ہوئی ہے، تو جو شخص میری سنت سے بے رغبتی اختیار کرے تو وہ مجھ سے نہیں!) یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ اس میں ایک اور زیادہ تمام شادیاں شامل ہیں۔"ختم شد
"مجلة البلاغ" شمارہ نمبر: 1015 اور "فتاوى علماء البلد الحرام" صفحہ: 386

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14022 ) کا جواب ضرور ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب