"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
مسلم : (969) میں ہے کہ ابو ہیّاج اسدی کہتے ہیں کہ : مجھے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا میں تمہیں ایسے کام کیلئے ارسال نہ کروں جس کام کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارسال کیا تھا؟[مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:](کسی بھی مورتی کو مٹائے بغیر اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا)"
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ بات ہے کہ: قبر بناتے ہوئے سنت یہ ہے کہ زمین سے زیادہ اونچی نہ
کی جائے، اور نہ ہی اسکی کوہان بنائی جائے، بلکہ ایک بالشت کے برابر اونچی کی جائے
اور [کوہان کی بجائے]برابر ہو، یہی امام شافعی رحمہ اللہ اور انکی موافقت کرنے
والے علمائے کرام کا موقف ہے، جبکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اکثر علمائے کرام سے یہ
نقل کیا ہے کہ قبر کی کوہان بنانا افضل ہے، اور یہ موقف امام مالک رحمہ اللہ کا ہے"
انتہی
" شرح نووی على مسلم " (7/ 36)
اور ملّا علی قاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: ایک بالشت تک قبر کو بلند کرنا مستحب ہے، اور اس سے
زیادہ بلند کرنا مکروہ ہے، جبکہ زیادہ بلند کو ڈھانا مستحب ہے، لیکن اسے کتنی مقدار
میں ڈھانا ہے؟ اس بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ کچھ سختی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : "زمین
کے برابر کر دیا جائے" اور انکا یہ کہنا حدیث کے الفاظ کے [یعنی علی رضی اللہ عنہ
کی گزشتہ روایت کے]زیادہ قریب ہے۔
اور ابن ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اس حدیث کو لوگوں کے اس عمل پر محمول کیا
جائے گا، جس میں وہ قبروں پر بلند تعمیرات کرتے تھے، اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے
کہ قبر کی کوہان بنائی جائے، بلکہ زمین سے اتنی بلند ہو کہ نظر آئے [کہ یہ قبر ہے]
اور زمین کے دیگر حصوں سے امتیاز ہوسکے" انتہی
" مرقاة المفاتيح " (3/ 1216)
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"حدیث کے الفاظ" برابر کر دینا" کا مطلب یہ ہے کہ تم [قبر پر بنی عمارت کو] توڑ کر
منہدم کر دینا، اور زمین کے برابر کر دینا، چنانچہ صرف قبر کی علامت کے طور پر صرف
ایک بالشت اونچی رہنے دینا، اللہ تعالی نے اسی طرح قبریں بنانے کی اجازت دی ہے، کہ
زمین سے ایک بالشت کے برابر ہی بلند کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہاں قبر ہے،
اور قبر کو قدموں سے روندنے اور اہانت سے بچایا جاسکے، اور ان پر کچھ تعمیر نہ کیا
جائے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " (2/ 369)
یہ دعوی کرنا کہ قبروں کو برابر کرنے کا حکم یہود ونصاری کی قبروں کیساتھ مختص تھا، یہ دعوی ہی باطل ہے، اسکی درج ذیل وجوہات ہیں:
1-
سب سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام تھا، اور تخصیص کیلئے
دلیل کی ضرورت ہے، جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس تخصیص سے متصادم دلیل
ملتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا
طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ) میں " تِمْثَالًا " اور
" قَبْرًا " نکرہ ہیں جو کہ نہی کے سیاق میں آئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ حکم ہر قبر
کیلئے ہے، کیونکہ نکرہ اگر نفی یا نہی کے سیاق میں آئے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے،
جیسے کہ فرمان باری تعالی میں ہے:
(وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا * إِلَّا أَنْ يَشَاءَ
اللَّهُ)
[الكهف: 23- 24] [اس آیت میں " لِشَيْءٍ " نکرہ نفی کے سیاق میں ہے
جو کہ عموم کا تقاضا کرتا ہے۔ مترجم]
اور ایسے ہی (وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ) [القصص: 88]
[یہاں پر بھی " إِلَهًا " کا لفظ نکرہ نفی کے سیاق میں ہے جو کہ عموم کا تقاضا کرتا
ہے۔مترجم]
اور قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نہی کے سیاق میں نکرہ ایسے ہی ہے جیسے نفی کے سیاق میں ہوتا ہے، یعنی عموم کا
فائدہ دیتا ہے "انتہی
" الفروق " (1/ 191)
2- مسلم : (968) میں اس حدیث سے بالکل متصل پہلے یہ ہے کہ: ثمامہ بن شُفَی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ رومی علاقے "ردوس" میں تھے، تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا، تو ہمیں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے اسکی قبر برابر کرنے کا حکم دیا، اور پھر کہا کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ قبروں کو برابر کرنے کا حکم دے رہے تھے"
تو یہ ایک صحابی کا فعل ہے ، جو انہوں نے ایک مسلمان کی قبر کیساتھ کیا ہے، جسکی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام قبروں کو برابر کرنے کا مطلب ہی سمجھا تھا۔
3- اگر یہ حکم صرف یہود ونصاری کی قبروں کو زمین کے برابر کرنے کیساتھ مختص ہوتا تو کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ: تصاویر اور مورتیاں مٹانے کے متعلق حکم بھی انہیں کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ دونوں احکامات ایک ہی حدیث میں اکٹھے وارد ہوئے ہیں، اور یہ بات بالکل باطل ہے، اہل علم میں سے کسی کا بھی یہ موقف نہیں ہے۔
دوم: قبر پر تعمیراتی کام چاہے قبر کے ارد گرد ہو یا قبر کے اوپر ہر دو صورت میں حرام ہے، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم میں شامل ہے، اور یہ شرک کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے قبروں پر تعمیر کا حکم دیا ہو، اور ان پر مزار یا عمارتیں بنانے کا حکم بھی نہیں دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے اس چیز کی ممانعت ثابت ہے، آج بھی بقیع میں صحابہ کرام کی قبریں سب لوگوں کیلئے عیاں ہے، کوئی قبر بھی اونچی نہیں ہے، اور ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مزار وغیرہ بھی نہیں ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر پرکھتے ہیں، چنانچہ مخالفین کو کہا جائے گا:
اگر قبر نبوی پر تعمیراتی کام سنت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے خلفائے راشدین اسکا حکم ضرور کرتے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دو ساتھیوں کی قبر پر اس لئے تعمیر کی کہ انہوں نے مسجد کی توسیع کیلئے قبر پر ایک دیوار بنائی، تا کہ عوام الناس قبر نبوی کو سجدہ گاہ نہ بنا لیں، اور جاہل لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنے۔
چنانچہ بخاری: (1390) اور مسلم : (529) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا تھا: (اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فر مائے جنہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا)، اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی سب کیلئے عیاں ہوتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔
اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"علمائے کرام کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یا کسی اور کی قبر کو
بھی سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا تھا، اس لئے کہ کہیں لوگ تعظیم نبوی میں غلو سے
کام لیں اور فتنے میں نہ پڑ جائیں، جو کہ بسا اوقات انسان کو کفر تک بھی پہنچا سکتا
ہے، جیسے کہ گزشتہ اقوام کیساتھ ایسا ہو بھی چکا ہے۔
اور جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور تابعین کرام کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ
ہونے کے باعث مسجد نبوی میں توسیع کی ضرورت پیش آئی ، اور توسیع امہات المؤمنین
کے گھروں تک پہنچ گئی ، جن میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی تھا، جو کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دو ساتھیوں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا
مدفن بھی ہے، تو انہوں نے قبر کے ارد گرد چاروں طرف دیوار بنا دی تا کہ مسجد سے
قبر نظر نہ آئے، اور کہیں عوام اسی طرف متوجہ ہو کر نمازیں نہ پڑھنے لگیں، اور
حرام کام کا ارتکاب نہ کریں، پھر اسکے بعد انہوں نے شمالی جانب کے دونوں کناروں سے
دیوار کو تھوڑا سا موڑ دیا، اور انہیں اتنا بڑھایا کہ دونوں شمالی کناروں سے
آنیوالی دیواریں آپس میں مل گئیں، یہ انہوں نے اس لئے کیا کہ کوئی بھی قبر کی طرف
قبلہ رخ نہ ہو، اسی لئے حدیث کے آخر میں کہا:" اگر اس چیز کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی کھول دی جاتی، لیکن اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں
آپ کی قبر کو بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے "انتہی
" شرح النووی على مسلم " (5/ 14)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کسی بھی نبی، یا ولی چاہے اہل بیت میں سے
ہو یا کسی اور میں سے کسی بھی فرد کی قبر پر تعمیراتی کام کی اجازت نہیں دی، نہ
مسجد بنانے کی اور نہ ہی مزار بنانے کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے
اسلام میں کسی بھی قبر پر مزار نہیں بنا ہوا تھا، ایسے ہی خلفائے راشدین اور انکے
ساتھ ساتھ علی بن ابی طالب، اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں
بھی کوئی مزار نہیں تھا، اس زمانے میں کسی نبی یا غیر نبی ؛کسی کی قبر پر بھی مزار
نہیں بنا ہوا تھا، ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر بھی مزار نہیں تھا" انتہی
" منهاج السنة النبوية " (1/ 479)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی قبریں نہ تو اونچی تھی اور نہ ہی زمین کیساتھ
چپکی ہوئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے دونوں صحابہ کی قبریں کوہان
والی ہیں، جن پر سرخ رنگ کی باریک کنکریاں ڈالی گئیں ہیں، قبروں پر کوئی عمارت
نہیں ہے، اور نہ ہی مٹی کی لیپائی کی گئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
دونوں ساتھیوں کی قبریں ہیں" انتہی
" زاد المعاد " (1/ 505)
اور ابو داود نے "المراسيل " (421) میں نقل کیا ہے کہ صالح بن اخضر کہتے ہیں: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی جو تقریبا ایک بالشت کے قریب [اونچی] تھی"
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (126400) کا مطالعہ کریں
سوم:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ نے کہا: "اور ہمارے نجد میں بھی" آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ نے کہا: "اور ہمارے نجد میں بھی، آپ نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہونگے ،وہیں پر شیطان کا سینگ رونما ہوگا) بخاری: (1037)، مسلم: (2905) الفاظ بخاری کے ہیں۔
حدیث میں مذکور "نجد" سے ہر وہ جگہ مراد ہے جو حجاز کی مشرقی جہت میں حجاز کی سطح زمین سے بلند ہو، اس لئے اس میں نجد الحجاز اور نجد العراق سب شامل ہیں۔
اس حدیث سے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت کو مذموم قرار دینا جس میں انہوں نے لوگوں کو خالص توحید کی طرف بلایا، اور شرک و قبروں کی پوجا سے نکالا، بالکل بے تکی سے بات ہے۔
تفصیلی جواب کیلئے آپ سوال نمبر: (36616) اور (99569) کا مطالعہ کریں۔
اور مزید معلومات کیلئے آپ سوال نمبر: (126907) اور (148439) کی طرف بھی رجوع کریں۔
واللہ اعلم.