ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

قبرستان کی دیکھ بھال، زیب و زیبائش ، اور خوبصورت بنانا جائز ہے؟

148439

تاریخ اشاعت : 21-11-2014

مشاہدات : 14949

سوال

سوال: کچھ لوگ قبرستان کی زیبائش و آرائش اور اندرونی راستوں کی دیکھ بھال کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تا کہ معذور افراد اور بچے آسانی سے قبرستان میں داخل ہوسکیں، تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشبہ قبرستان میں مدفون افراد کو بے حرمتی سے بچانے کیلئے قبرستان کی دیکھ بھال کرنا ایک شرعی عمل ہے، لیکن دیکھ بھال صرف اتنی ہی کی جائے گی جس سے مقصد پورا ہوجائے،  چنانچہ حد سے تجاوز کرتے ہوئے قبرستان کی دیکھ بھال ، زیبائش و آرائش ، قبروں کو پختہ بنانے، ان پر پینٹ وغیرہ کرنے کیلئے پیسہ خرچ کرکے شرعی حدود کو پامال نہیں کیا جائے گا۔

شرعی حکم یہ ہے کہ قبروں کو انکی اپنی اصلی حالت میں رکھا جائے؛ کیونکہ قبروں کی زیارت سے نصیحت حاصل ہوتی ہے، اور اصلی حالت پر برقرار رکھنے سے قبروں کی تعظیم اور انکے بارے میں غلو  کی نفی ہوتی ہے۔

اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ قبرستان کے ارد گرد حفاظتی دیوار بنائی جائے، ایسے ہی وہاں روشنی ، اور قبروں کی صفائی کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں، داخلی راستے بنائے جائیں، لیکن ان کاموں کیلئے اسراف اور غلو سے بچیں، قبرستان میں داخلی راستہ بنائیں لیکن فرش نہ لگائیں، اور روشنی کا انتظام دفن کرتے ہوئے ضرورت کے وقت استعمال کیلئے ہو، اسی طرح قبرستان کی انتطامیہ کو قبرستان میں شجر کاری، ضرورت سے زیادہ زیبائش و آرائش سے روکا جائے، صرف اس حد تک دیکھ بھال کی جائے کہ تدفین کے مراحل آسان رہیں، اور کوئی قبرستان کی بے حرمتی نہ کرے۔

یہ سب کچھ عقیدہ توحید کی حفاظت ، اور شرک کے اسباب  کی روک تھام، اور مسلمان فوت شدگان  کے احترام  کیلئے ہے، تا کہ قبرستان کی شکل و صورت اس انداز سے باقی رہے جسکو دیکھ  کر نصیحت ملے، اور جس مقصد کیلئے قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ مقاصد حاصل ہوں۔

شوکانی رحمہ اللہ  "الدراري المضية" (2 / 301) میں کہتے ہیں :
"قبروں کا اہتمام اگر انکا مقام و مرتبہ بڑھانے، اور خوبصورتی کیلئے ہو تو اس کام کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر فتنہ انگیز یہ ہے کہ قبرستان کے زائرین قبروں پر قیمتی چادریں اور پتھر وغیرہ چڑھائیں؛ کیونکہ ایسے کام کرنے سے قبرستان میں آنے والے عوام الناس زائرین   کے دلوں میں صاحب قبر کی تعظیم آتی ہے ، جسکی وجہ سے زائرین  صاحب قبر کے بارے میں ناجائز نظریات بنا  لیتے ہیں"انتہی

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"قبرستان کی ارد گرد سے گری ہوئی دیوار کی مرمت ، قبرستان کی حفاظت کیلئے دروازے لگانا، چوکیدار رکھنا، وقبرستان میں داخلی راستے بنانے اور قبرستان کی صفائی ستھرائی میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جبکہ قبرستان میں شجر کاری کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں عیسائیوں کی مشابہت ہے، اس لئے کہ وہ اپنے قبرستان کو باغیچہ بنا کر رکھتے ہیں،چنانچہ درختوں کو ، اور انکی آبیاری کیلئے لگی ہوئی پانی کو ٹوٹیوں کو ہٹانا ضروری ہے، صرف انہیں ٹوٹیوں کو باقی رکھا جائے گا جو پانی پینے اور مٹی  گیلی کرنے کیلئے استعمال ہوں۔
جبکہ قبرستان میں لائٹنگ سے خدشہ ہے کہ یہ قبروں پر چراغاں کا موجب بنے گا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر چراغاں کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور ویسے بھی جاہل لوگ خرافات کے دلدادہ ہوتے ہیں، اس لئے ان خدشات کے پیش نظر لائٹوں کو اتار دینا چاہئے"انتہی
"فتاوى ورسائل محمد بن إبراہيم" (3 / 161)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"ہر صاحب استطاعت کیلئے ضروری ہے کہ وہ قبروں پر بنی ہوئی مساجد، گنبد، اور عمارتوں کو ہٹانے میں اپنا کردار ادا کرے، اور قبروں کو ایسے ہی کھلا رہنے دیا جائے جیسے  بقیع کے قبرستان  میں عہد نبوی  میں اور ہمارے دور میں کھلی ہوئی ہیں، کہ قبریں کھلے آسمان تلے ہیں، ان پر کوئی مسجد، حجرہ، گنبد وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر عمارت ، انہیں عبادت گاہ   ، اور قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل اہل قبور کے بارے میں غلو کاذریعہ ہے، جس سے خدشہ ہے کہ انکی اللہ کے ساتھ عبادت کی جائے گی۔
اسی طرح قبروں  پر پیسوں، جانوروں، اور کپڑوں کی شکل میں نذرانے نہیں دئے جا سکتے،  قبر پر مجاور یا خادم بھی نہیں رکھا جائے گا،لیکن قبرستان کی بیرونی  جانب پوری دیوار بنائی جائے، تا کہ قبرستان کی بے حرمتی نہ ہو، اور جانور قبرستان میں داخل نہ ہوسکیں ، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے "اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا، "فتاوى نور على الدرب" (1 / 271-272)

آپ رحمہ اللہ  سے یہ بھی پوچھا گیا:
کیا قبروں پر اور قبرستان کے داخلی راستوں میں روشنی کا انتظام کرنا درست ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر تدفین کے لئے لوگوں کی سہولت کو مد نظر  رکھ  کر یا قبرستان کی بیرونی دیوار پر لائٹیں لگائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن قبروں پر چراغاں اور روشنی کا انتظام  کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  قبرستان کی زیارت کرنے والی خواتین پر ، اور مساجد کو عبادت گاہ بنانے والے لوگوں ، اور ان پر چراغاں کرنے والوں  پر لعنت فرمائی ہے۔
اسی طرح اگر قبرستان کے پاس سے گزرنے والے راستے پر اسٹریٹ لائٹس لگی ہوئی ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر تدفین کے وقت ضرورت کی بنا پر لائٹ کا انتظام کیا گیا ، یا تدفین کیلئے آنے والے افراد اپنے ساتھ روشنی کا انتظام کرکے آئے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے"انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (13 / 244-245)

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ   کہتے ہیں:
"قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، زندہ افراد وہاں نہیں رہتے  کہ وہاں پر زیب و زیبائش کا کام کیا جائے، اور سیمنٹ   پر مرثیے لکھے جائیں، قبرستان فوت شدگان کا علاقہ ہے، اس لئے قبرستان کو اسی حالت میں رکھا جائے جس حالت میں موجود ہے، تا کہ  قبرستان کے پاس سے گزرنے والے لوگ نصیحت حاصل کریں، اور صحیح حدیث میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا کرتا تھا، اب زیارت کیلئے جایا کرو، بلاشبہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے)
اور اگر ہم نے لوگوں کیلئے قبروں کو پختہ بنانے، اور ان پر کتابت کرنے کی اجازت دے دی تو ان قبروں پر بھی فخر  شروع ہوجائے گا، اور قبرستان زندہ افراد کیلئے نصیحت کی جگہ نہیں رہے گی، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبر کو پختہ بنانے، اور اس  پر عمارت کھڑی کرنے، قبر پر کتابت، اور قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے معامالات سے منع فرمایا دیا جو قبروں کے بارے میں غلو کا سبب بن سکتے تھے، اسی طرح ایسے معاملات سے بھی منع فرمایا جن میں اہل قبور کی اہانت تھی، اس لئے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا"انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (196 / 34)

اور قبروں کے بارے میں جائز اور ناجائز دیکھ بھال کے متعلق جاننے کیلئے سوال نمبر: (126400) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب