منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسباب اپنانے کے کیا ضابطے ہیں ؟

سوال

سوال: مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے ضرورت کے مطابق اتنے اسباب اپنا لیے ہیں کہ استطاعت کے مطابق اسباب اپنانے کی اپنی کوشش سے میں نفسیاتی طور پر مطمئن ہو جاؤں اور یہ جان لوں کہ اب مجھے اللہ تعالی پر بھروسا اور اعتماد کرنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ: اسباب اپنانے کا کیا ضابطہ ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "گھٹنا باندھ کر توکل کرو" تو کیا اسباب میں یہ شامل ہو گا کہ لوہے کی زنجیر سے باندھوں؟ یا اس میں مبالغہ آرائی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسباب اپنانا اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسا کرنے کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے، لیکن ساتھ میں یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ نفع اور نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، [یعنی اسباب میں تاثیر پیدا کر کے اہداف مکمل فرما دیتا ہے]

اسی طرح اسباب ایسے ہوں جن کا حقیقی معنوں میں باہمی تعلق ہو، اور اپنائے جانے والے اسباب کی کامیابی مشاہداتی، یا عرف یا شرعی ذریعے یا کسی اور انداز سے  مشہور و معروف ہو۔

اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنائے جانے والے اسباب شرعی طور پر بھی جائز ہوں؛ چنانچہ اچھے اہداف کیلیے وسائل و اسباب کا شرعاً درست ہونا بھی از بس ضروری ہے۔

اسباب اپنانے کے بعد انسان کو معتدل رہنا چاہیے، لہذا یہ درست نہیں ہے کہ کلی طور پر اسباب اپنانا ہی چھوڑ دے ، اور نہ ہی کلی طور پر اسباب کے ساتھ ہی دل لگا لے، چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ اسباب کو اسی طرح صرف ذریعہ ہی سمجھے جیسے دیگر لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں اسباب کو ذریعہ سمجھتے ہیں ، ان پر کلی اعتماد نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف خالق باری تعالی پر ہی کرے؛ کیونکہ وہی شہنشاہ  اور تمام امور کو چلانے والا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسباب پر اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ: دل کلی طور پر اسباب  پر بھروسا کر بیٹھے اور اسی سے امید لگائے، اسی کو سہارا سمجھے؛ حالانکہ مخلوقات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جن پر مکمل طور پر اعتماد کیا جا سکے؛ کیونکہ مخلوق تنہا کچھ بھی نہیں  اور مخلوق کے حامی اور مخالفین بھی ہوتے ہیں، اس تفصیل کے بعد: اگر مسبب الاسباب ذات ان اسباب کو مؤثر نہ بنائے  تو یہ اسباب  غیر مؤثر ہی رہتے ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (8/169)

اور جہاں تک اسباب اپنانے کے ضابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہر معاملے کے اعتبار سے الگ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے معمولی بیماری کیلیے احتیاط ایسے نہیں ہوتی جیسے غیر معمولی بیماری کیلیے ہوتی ہے، اسی طرح قیمتی چیز کی حفاظت ایسے نہیں ہو تی جیسے معمولی قیمت کی چیز کی ہوتی ہے، تو یہی معاملہ اسباب اپنانے کا بھی ہے۔

اسی طرح تلاشِ معاش کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ  بیماریوں سے بچاؤ  سے مختلف ہو گا، اسی طرح کھانے پینے کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ  حصولِ اولاد کے ضابطوں اور اسباب سے مختلف ہو گا، اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کیلیے اسباب بھی مختلف ہوں گے، چنانچہ ہر معاملے کیلیے اسباب مختلف اور ان کے ضابطے بھی الگ الگ ہوں گے۔

اسی طرح اسباب نہ اپناتے ہوئے سستی اور کاہلی میں پڑے ہوئے شخص  کے درمیان اور اسباب اپنانے کیلیے خوب تگ و دو کرنے والے میں بھی فرق ہوتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے معاملات اور حالات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ جانکاری ہوتی ہے وہ اپنی عادات اور طور اطوار سے بھی اسباب  اپنانے کی کیفیت جان لیتے ہیں۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (11749)  کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب