الحمد للہ.
اول:
مہر بيوى كا حق ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے نكاح كى رغبت ركھنے والے مرد پر فرض كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو تم ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو النساء ( 4 ).
امام ابن جرير طبرى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" اور تم عورتوں كو ان كے مہر ادا كرو يہ واجب اور لازم و فرض كردہ عطيہ ہے.
ديكھيں: تفسير الطبرى ( 7 / 552 ).
مہر ميں مال دينا بھى ممكن ہے مثلا سونا يا نقدى يا سامان، يا خدمت و فائدہ بھى ہو سكتا ہے كہ خاوند اپنى بيوى كى خدمت كرے مثلا اسے قرآن مجيد كى تعليم دے يا اسے حج كرائے.
مہر لينے كے بعد يا لينے سے قبل عورت كے ليے مہر سے دستبردار ہونا جائز ہے اس ميں كوئى مانع نہيں؛ ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ وہ خود اپنى مرضى اور راضى و خوشى مہر سے دستبردار ہو، ليكن اگر اسے مہر چھوڑنے اور دستبردار ہونے پر مجبور كيا جائے اور دباؤ ڈالا جائے تو پھر اس كى يہ دستبردارى صحيح نہيں ہوگى بلكہ مہر كى ادائيگى خاوند كے ذمہ ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو، پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو اس حال ميں كہ مزے دار و خوشگوار ہے النساء ( 4 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور اگر تم انہيں ہاتھ لگانے ( رخصتى ) سے قبل طلاق دے دو، اور تم ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو تم نے جو مہر مقرر كيا ہے اس كا نصف ( لازم ) ہے، مگر يہ كہ وہ معاف كر ديں يا وہ شخص معاف كر دے جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے البقرۃ ( 237 ).
اس ليے اگر آپ كى بيوى نے راضى وخوشى خود ہى اپنا مہر چھوڑ ديا تو آپ اس سے برى ہو گئے، اور اب دوبارہ اس كے ليے مہر كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ جب كسى كا قرض معاف كر ديا جائے تو پھر دوبارہ اس ك مطالبہ كرنا صحيح نہيں ہے.
واللہ اعلم .