جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

كيا مرد عورتوں كى نظميں اور ترانے سن سكتے ہيں ؟

103439

تاریخ اشاعت : 18-08-2007

مشاہدات : 9534

سوال

كيا مرد حضرات عورت كى آواز ميں ريكارڈ كردہ ملى اور قومى نغمے، اور اسلامى نظيں اور ترانے سن سكتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم آپ ـ سائل بھائى ـ اور سب مسلمان بھائيوں كو دعوت دينے ہيں كہ وہ ہمارے ساتھ مل كتاب و سنت ميں موجود دلائل پر غور فكر كريں، اور اہل علم كے اقوال كو بصيرت كے ساتھ ديكھے، اور پھر ہر شخص نے جو كچھ پڑھا ہے اس كے مطابق فيصلہ كرے، اور مومن شخص اپنے نفس كا محاسبہ كرے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى تو اس كے دل كى حالت بھى جانتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنے دل سے پوچھو، نيكى وہ ہے جس پر تيرا دل مطمئن ہو، اور اس پر نفس مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو تيرے دل ميں كھٹكے، اور سينے ميں تردد حاصل ہو، اگرچہ لوگ تجھے فتوى ديں، اور تجھ سے پوچھيں "

مسند احمد ( 4 / 228 ) علامہ البانى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1734 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

تو ہم ابتدا كرتے ہوئے يہ كہينگے كہ:

ہر مسلمان شخص اللہ تعالى كى كتاب قرآن مجيد كى آيك عظيم آيت كو سنتا اور پڑھتا ہے جس ميں اللہ سبحانہ وتعالى پاكباز ترين عورتوں اور عفت و عصمت ميں سب سے زيادہ عفت والى بيويوں كو ڈرا رہے ہيں، اور انہيں ادب و عفت اور فضيلت پر ابھارتے ہوئے ان كى راہنمائى ان الفاظ كے ساتھ كر رہے ہيں:

اے نبى كى بيويو تم عام عورتوں كى طرح نہيں ہو، اگر تم پرہيز گارى اختيار كرو تو تم نرم لہجے ميں بات نہ كرو، كہ جس كے دل ميں روگ ہے وہ كوئى برا خيال كرنے لگے، اور ہاں قاعدے كے مطابق اچھى كلام كرو الاحزاب ( 32 ).

تو يہاں اللہ سبحانہ و تعالى انہيں رجس و پليدى كے وسائل ختم كرنے، اور پاكيزگى اختيار كرنے كے وسائل كى تعليم دے رہا ہے، حالانكہ وہ اہل بيت ميں شامل ہيں، اور زمين ميں رہنے والى عورتوں ميں سب سے پاكباز ہيں، اور جو عورتيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھرانہ ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى صحبت اور اعلى ترين گھر ميں رہيں ان كے علاوہ باقى عورتيں تو ان وسائل كى زيادہ ضرورت مند ہيں، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كو ان كے عظيم مقام اور مرتبہ كا احساس دلاتے ہوئے فرمايا:

تم عام عورتوں كى طرح نہيں ہو .

اور رفعت و عظمت والى عورت كا حال يہى ہے وہ يہى چاہتى ہے كہ اس كى عزت اور رفعت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كے مقام تك پہنچ جائے، تو جب وہ يہ سنتى ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كو مخاطب كر كے انہيں اجنبى مردوں كے ساتھ نرم لہجہ ميں بات كرنے سے منع فرمايا ہے، تو اسے اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم اور نہى كى حكمت كا ادراك ہوتا ہے.

كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہى مرد و عورتوں كو پيدا فرمايا ہے، اسے علم ہے كہ عورت كى آواز ميں نرمى اور سوز ہے جو طمع و فتنہ كو ابھارتا ہے اور انسانى دل كا حال يہى ہے كہ اس كى اصل خلقت ميں ہى شہوت ركھى گئى ہے، اور يہ كہ خرابى و گندگى سے پاكى و طہارت اس وقت تك نہيں ہو سكتى جب تك ابتدائى اور بنيادى طور پر ہى اسے پيدا كرنے والے اسباب سے اجتناب نہ كيا جائے، اور پرحكمت شريعت نے ان سب فتنوں كے دروازے بند كيے ہيں، اگرچہ انفرادى طور پر فتنہ و فساد كا احتمال كمزور ہے، ليكن اس كا معاشرے پر اثر عام اور زيادہ اور بہت زيادہ وقت تك رہتا ہے، اور پھر اس كا اثر ظاہر اور واضح ہے، چاہے بعض افراد پر مخفى رہے، ليكن اللہ تعالى جو كہ سب لوگوں كا پروردگار ہے اس پر اس كا اثر مخفى نہيں ہو سكتا، اور اسى نے ہى مسلمان عورتوں كو حكم ديا ہے كہ وہ كلام ميں نرمى اختيار نہ كريں.

جو ترانے اور نظميں اور غزليں عورت يا لڑكى كى آواز ميں نشر كى جاتى ہيں وہ ايك عظيم فتنہ و خرابى كا باعث ہيں، اگرچہ آج كچھ لوگ تو اس كے خلاف جھگڑا كرتے ہيں، ليكن ايك دن ايسا بھى آئيگا كہ جھگڑنے والے كے پاس سوائے خواہشات اور شيطان كے كوئى عذر باقى نہ ہوگا؛ كيونكہ جب انحراف و فتنہ كا دروازہ كھول ديا جائے تو لوگ اس ميں انتہائى وسعت اختيار كر ليتے ہيں.

جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كا قول ہے:

" بدعات شروع ميں ايك بالشت ہوتى ہے، اور پھر اس ميں زيادتى ہوتى ہوئى ايك ہاتھ اور پھر كئى ميلوں اور فرسخ تك جا پہنچتى ہے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 8 / 425 ).

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو شيطان كے قدموں كى پيروى مت كرو، اور جو كوئى بھى شيطان كے قدموں كى پيروى كرے تو وہ تو بے حيائى اور برے كاموں كا ہى حكم كريگا، اور اگر اللہ تعالى كا فضل و كرم تم پر نہ ہوتا تو تم ميں سے كوئى بھى كبھى بھى پاك صاف نہ ہوتا، ليكن اللہ تعالى جسے پاك كرنا چاہے كر ديتا ہے، اور اللہ تعالى سب كچھ سننے والا اور سب كچھ جاننے والا ہے النور ( 21 )

اس ليے تزكيہ و پاكيزگى مسلمان مرد و عورت كا مقصد ہے، جس كا مطلب دل و جان كى طہارت و پاكيزگى ہے، اس كے حصول كے ليے شيطانى ہتھكنڈوں سے پجنا ضرورى ہے، كيونكہ دل بہت جلد بدل جانے والا ہے، اور نفس بھى خواہشات و تمنا كرتا ہے، اور بندہ جسم ميں ركھى گئى شہوت كے سامنے كمزور ہے.

لہذا ان لوگوں كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے جن كے ذمہ اور ان كى گردنوں پر پورے كے پورے معاشرے كا بوجھ ہے، اور وہ لڑكيوں كى آواز ميں ملى نغمے اور نظمے اور ترانے اسلام كے نام پر ريكارڈ كر كے اسے نشر كرتے ہيں، اور فضيلت كى دعوت كا نام ديتے ہيںن اور بعض اوقات اسے مقابلہ كا نام بھى ديتے ہيں!

ہم پوچھتے ہيں كہ آيا مقابلہ اور فضيلت ايك فتنہ ساز اور نرم آواز اور خوبصورت لڑكى كا محتاج ہے ؟!!

اور كيا اخلاق و آداب فاضلہ كى دعوت كے سب وسائل ختم ہو گئے ہيں اور صرف يہى باقى بچا ہے كہ ہم ان گانے والى لڑكيوں كے سامنے بيٹھ كر سنيں، يا پھر ان كى آواز ميں ريكارڈ شدہ اشعار اور ملى نغميں اور ترانے ٹيپ ريكارڈ اور ٹى وى چينلوں پر سنيں ؟!!

يہاں ہم ايك طريقہ اور تجويز پيش كرتے ہيں، جس پر ہر كوئى فيصلہ كرے، پھر اس سے حق اور صحيح كى پہچان كرے:

اگر ہم يہ سمجھ ليں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے ساتھ زندگى بسر كر رہے ہيں، اور پھر ايك خوبصورت نوجوان لڑكى اپنى خوبصورت اور سريلى آواز ميں اشعار پڑھنے اور گانا شروع كر دے، اور اس ميں مختلف قسم كے آلات موسيقى بھى استعمال ہو، اور اس مجلس ميں نوجوان لڑكے اور مرد سب جمع ہو كر اسے سنيں اور ديكھيں.

تو كيا كوئى شخص يہ تصور كر سكتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شريعت اسے قبول كرتے ہوئے اس پر راضى ہو، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو وہ ہيں جنہوں نے اپنے چچا زاد بھائى فضل بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم كى گردن دوسرى گھما كر دوسرى طرف كر دى كہ وہ خثعمى قبيلہ كى عورت كو نہ ديكھے، اور فرمايا:

" ميں نے ايك نوجوان لڑكے اور لڑكى كو ديكھا تو مجھے خدشہ ہوا كہ ان دونوں ميں شيطان نہ آ جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 885 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ابن جوزى رحمہ اللہ اپنى مايہ ناز كتاب " تلبيس ابليس " ميں لكھتے ہيں:

" ہميں ابو القاسم الحريرى نے ابو طيب طبرى سے خبر دى انہوں نے كہا: غير محرم عورت سے گانا سننا جائز نہيں چاہے وہ آزاد عورت ہو يا لونڈى، شافعى كے اصحاب كا قول يہى ہے.

اور امام شافعى كہتے ہيں: اور گانے والى لونڈى كے پاس جب لوگ اسے سننے كے ليے جمع ہوں تو وہ بے وقوف ہے، اس كى گواہى قبول نہيں ہو گى، اور پھر اس ميں اور سختى كرتے ہيں فرمايا: يہ ديوثيت ہے "

ابن جوزى كہتے ہيں:

اس كے مالك كو بے وقوف اور فاسق اس ليے كہا ہے كہ اس نے لوگوں كو باطل كى طرف بلايا ہے، اور جو شخص باطل كى دعوت دے اور اس كى طرف بلائے وہ بے وقوف اور فاسق ہے " انتہى

ديكھيں: تلبيس ابليس ( 277 ).

بلكہ شريعت اسلاميہ نے تو عبادت ميں بھى عورت كو آواز پست ركھنے كا حكم ديا ہے، اس ليے اگر نماز ميں كوئى معاملہ بن جائے تو مرد حضرات كے ليے شريعت نے سبحان اللہ كہنا مباح كيا ہے، ليكن عورت كو سبحان اللہ كہنے كى اجازت نہيں دى تا كہ اس كى آواز مرد نہ سنيں، بلكہ اسے دونوں ہاتھوں كے ساتھ ہلكى سى تالى بجانے كا حكم ديا ہے، اور اسى طرح تلبيہ كہنے اور اذان اور سلام كے جواب ميں بھى آواز كو پست ركھنے كا حكم ديا ہے، ذيل ميں ہم فقھاء اربعہ اقوال نقل كرتے ہيں:

احناف كى كتب " حاشيۃ الطحطاوى " ميں ہے:

" الفتح ميں كہا ہے: صرف آواز بلند كرنے ميں اختلاف ہے، نہ كہ سر لگانے اور لہكانے ميں " انتہى.

ديكھيں: حاشيۃ الطحطاوى ( 1 / 161 ).

يعنى سريلى آواز نكالنے، اور اسے لہكانے كى ممانعت ميں كوئى اختلاف نہيں.

اور فتح القدير كى شرح ميں كمال الدين السيواسى كہتے ہيں:

" النوازل ميں صراحت كى ہے كہ عورت كى آواز ستر ہے، اس بنا پر ميرے نزديك كسى عورت كا نابينا آدمى كى بجائے عورت سے قرآن كى تعليم حاصل كرنا زيادہ بہتر ہے.

وہ كہتے ہيں: كيونكہ عورت كى آواز ستر ہے، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" مرد سبحان اللہ كہيں، اور عورتيں تالى بجائيں "

اس ليے اچھا نہيں كہ عورت كى آواز مرد سنے " انتہى.

ديكھيں: شرح فتح القدير ( 1 / 260 ).

اور فقہ مالكيہ كى كتاب " شرح مختصر خليل " ميں ہے:

" اور الناصر نے بيان كيا ہے كہ: عورت كى آواز سننے سے اگر لذت حاصل ہونے كا خدشہ ہو تو اسے اس حيثيت ميں بلند كرنا جائز نہيں، نہ تو جنازہ ميں، اور نہ ہى شادى بياہ كے موقع پر، چاہے وہ نوجوان ہو يا نہ، ليكن بوڑھى عورتوں كى آواز سننا حرام نہيں " انتہى.

ديكھيں: شرح مختصر خليل للخرشى ( 1 / 276 ).

اور كتاب الام ميں امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورتوں كو پردہ ميں رہنے كا حكم ہے، اس ليے عورت كى آواز كوئى شخص بھى نہ سنے تو يہ اس كے ليے زيادہ بہتر اور زيادہ پردہ كا باعث ہے، اور نہ ہى عورت تلبيہ ميں اپنى آواز بلند كرے، بلكہ صرف اپنے آپ كو ہى سنائے " انتہى.

ديكھيں: الام ( 2 / 156 ).

اور فقہ شافعى كى كتاب " روضۃ الطالبين " ميں درج ہے:

" اور صحيح يہى ہے كہ عورت كى آواز ستر نہيں، ليكن فتنہ و فساد كے وقت اس كى طرف كان لگانے اور اسے سننے كى كوشش كرنا حرام ہے، اور اگر عورت كا دروازہ كوئى مرد كھٹكھٹائے تو عورت كو چاہيے كہ وہ نرم اور سريلى آواز ميں جواب نہ دے، بلكہ اپنى آواز ميں سختى پيدا كرے " انتہى.

ديكھيں: روضۃ الطالبين ( 7 / 21 ).

اور فقہ حنبلى كى كتاب " الانصاف " ميں لكھا ہے:

صالح كى روايت ميں ہے كہ امام احمد كا قول ہے: بڑى عمر كى عورت كو سلام كيا جائيگا، ليكن نوجوان لڑكى نہ بولے.

قاضى كہتے ہيں: يہ اس ليے كہ كہيں اس كى آواز سے فتنہ ميں پڑ جائے، اور مذہب اسے مطلق كہا ہے، دونوں روايتوں كى بنا پر لذت سے آواز سننا حرام ہے، چاہے قرآت كى ہو، المستوعب اور الرعايۃ اور الفروع وغيرہ ميں اسے بالجزم كہا ہے، قاضى كہتے ہيں: عورت كى آواز سننے سے منع كيا جائيگا " انتہى.

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 31 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسے ـ يعنى عومى طور پر گانا سننا ـ اجنبى عورت سے سننا بہت زيادہ حرام ہے، اور دين كے ليے زيادہ خرابى كا باعث ہے " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 230 ).

اور اسى طرح مردوں كے ليے عورتوں كى اشعار اور نظميں اور نغمے وغيرہ سننے جائز نہيں، چاہے يہ اس كے سامنے بيٹھ كر اور جمع ہو كر سنے جائيں، يا ريكارڈ شدہ آواز ميں، اور چاہے يہ اشعار اخلاق و كردار پر ابھارتے ہوں، يا پھر وہ فتنہ فساد اور برائى كى دعوت ديتے ہوں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميرى رائے تو يہ ہے كہ وہ حرام ہے، كہ عورتيں ان مردوں كے سامنے اپنى آواز بلند كريں جو اسے سننے كے ليے اكٹھے ہوئے ہوں اور ان كى آواز سے لذت محسوس كرتے ہوں " انتہى.

ديكھيں: اللقاء الشہرى ( 55 ) سوال نمبر ( 14 ).

بلكہ لڑكيوں اور عورتوں كى آواز ميں دينى نظميں اور ترانے سننے ميں اشكال ہے، كيونكہ اسے سننے والا شخص تو اسے قرب اور نيكى سمجھتا ہے، اور لوگ اس ميں اپنے دين كا فائدہ سمجھتے ہيں، بلكہ بعض اوقات تو اس سے بھى زيادہ بڑھ كر اسے دعوت الى اللہ اور جھاد فى سبيل اللہ كى جانب ايك قسم كى دعوت سمجھتے ہيں.

امام ابو عمرو بن صلاح رحمہ اللہ سے ايسے افراد كے متعلق دريافت كيا گيا جو دف اور بانسرى كے ساتھ اشعار سننا حلال سمجھتے قرار ديتے ہيں، .... اور اس ميں اجنبى اور غير محرم عورتيں بھى حاضر ہوتى ہيں، اور بعض اوقات تو وہ ايك دوسرے ميں گھل مل بھى جاتے ہيں، اور بعض اوقات وہ اپنے قريب عورتوں كو ديكھتے ہيں، اور بعض اوقات مرد ايك دوسرے سے معانقہ بھى كرتے ہيں، اور بغير داڑھى كے امرد لڑكے سے دف اور بانسرى كے ساتھ اشعار سنتے ہيں جو ان كے ليے گاتا ہے، اور وہ اپنے چہروں كو اس امرد لڑكے كے چہرے كى جانب ہى گاڑے ركھتے ہيں، اور گانے اور گانے والے پر ہى ہلاك ہونے والے ہيں، پھر وہ رقص و تالى بجا كر محفل سماع سے علحيدہ ہوتے ہيں، اور يہ اعتقاد ركھتے ہيں كہ ايسا كرنا باعث قرب ہے اور اس ميں لذت ہے، اور وہ اس سے اللہ كے قريب ہوتے ہيں، اور كہتے ہيں: يہ سب سے افضل عبادت ہے!! كيا يہ حلال ہے يا حرام ؟ اور جو اسے حلال قرار دے تو كيا اسے ڈانٹا جائيگا يا نہيں ؟

انہوں نے جواب ديا:

يہ علم ميں ركھيں كہ ان لوگوں كا تعلق ان افراد سے ہے جو سب سے گمراہ ترين فرقہ ہے، اور ہر قسم كى جہالت اور حماقت ان ميں پائى جاتى ہے، يہ انبياء كى شريعت كا انكار كرنے والے ہيں، اور علم اور علماء ميں جرح قدح كرنے والے ہيں، انہوں نے زاہد لوگوں كا لبادہ اوڑھ ركھا ہے اور دنيا ترك كرنے كا اظہار كر رہے ہيں، اور شہوات كے پيچھے چل نكلے ہيں اور انہوں نے خواہشات و نفس كى دعوت كو تسليم كيا ہے، اور لہو آلات موسيقى ميں لگ گئے ہيں اور اس كام ميں مشغول ہو گئے ہيں جو اہل باطل اور معصيت كا ارتكاب كرنے والوں كا تھا، اور انہوں نے گمان كر ليا ہے كہ اس طرح وہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كر رہے ہيں.

حالانكہ يہ لوگ تو اس ميں اپنے سے پہلے لوگوں كے طريقہ كى پيروى ہى كر رہے ہيں، اور انہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے، اور اس كے برگزيدہ بندوں انبياء پر بھى؛ دھوكہ دينے كے ليے شيطانى پھندوں ميں سے ايك پھندہ ہے، اور يہ حودث زمان ميں سے ايك ايسا عجوبہ ہے جو عوام كو دھوكہ دينے، اور اسلامى نظم كو خراب كرنا ہے... ان كا اس محفل سماع كے متعلق يہ كہنا كہ يہ باعث قرب اور اطاعت و فرمانبردارى ہے، يہ چيز مسلمانوں كے اجماع كے بھى مخالف ہے....

رہا اس سماع كو مباح اور حلال كرنا تو يہ علم ركھيں كہ دف گانا اور بانسرى و سارنگى بجانا سب كچھ جمع ہو جائے تو مسلمان آئمہ مذاہب وغيرہ كے ہاں اس كا سننا حرام ہے، اور اجماع ميں معتمد قول والے ميں سے كسى شخص سے يہ ثابت نہيں.

اور جو يہ ذكر كيا ہے كہ وہ امرد لڑكے سے غير محرم عورتوں سے يہ سنتے ہيں، اور اسے مباح قرار ديتے ہيں؛ تو يہ قطعى طور پر ملحد اور غير اخلاقى حركات ہيں، كسى بھى مسلمان عالم دين اور زاہد شخص وغيرہ نے اسے مباح قرار نہيں ديا... "

يہ فتوى بہت طويل ہے، ہم نے اس ميں سے كچھ فقرے نقل كيے ہيں.

ديكھيں: فتاوى ابن صلاح ( 2 / 499 - 501 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 11563 ) اور ( 99630 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب