الحمد للہ.
صحيح نصوص ميں كئى قسم كى دلالت سے صريحا ملتا ہے كہ شعر كہنا اور سننا جائز ہيں، صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہ نے شعر سنے بھى اور شعر كہے بھى، اور ان كے علاوہ دوسروں نے بھى اپنے حضر و سفر، مجلس اور اپنے كاموں ميں فردى آواز ميں شعر و شاعرى كى، جيسا كہ حسان بن ثابت اور عامر بن اكوع، اور انجشہ رضى اللہ تعالى عنہم شعر كہتے تھے، اور انہوں نے اجتماعى آواز ميں بھى شعر كہے، جيسا كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں خندق كھودنے كا قصہ بيان ہوا ہے ہے وہ بيان كرتے ہيں:
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھا كہ ہميں تھكاوٹ اور بھوك پہنچى ہوئى ہے تو فرمانے لگے:
اے اللہ آخرت كى زندگى كے علاوہ كوئى زندگى نہيں
تو تم انصار و مہاجرين كو بخش دے.
تو صحابہ كرام اس كے جواب ميں كہنے لگے:
ہم وہ لوگ ہيں جنہوں نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم سے بيعت كر ركھى ہے كہ: ہم اس وقت تك جہاد كرينگے جب تك باقى ہيں "
صحيح بخارى ( 3 / 1043 ).
اور مجالس ميں بھى شعر كہا كرتے تھے؛ ابن ابى شيبہ نے حسن عن ابى سلمہ بن عبد الرحمن كى سند سے حديث بيان كى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو منحرف تھے، اور نہ ہى بتكلف خاموشى اختيار كرنے والے تھے، بلكہ وہ اپنى مجالس ميں شعر كہتے تھے، اور اپنى جاہليت كے معاملہ كا انكار كرتے، اور جب ان ميں سے كوئى ان كے دين كے بارہ ميں بات كرتا تو ان كى آنكھيں تيزى سے حركت ميں آ جاتى اور وہ اسے تيز نظروں سے ديكھنے لگتے "
ابن ابى شيبہ ( 8 / 711 ).
يہ وہ دلائل ہيں جو شعر كہنے كے جواز پر دلالت كرتے ہيں، چاہے وہ اجتماعى آواز ميں ہوں يا انفرادى آواز ميں.
النشيد " يعنى ترانا " عربى زبان ميں شعر كو اونچى اور اچھى اور باريك آواز ميں پڑھنے كو نشيد كہتے ہيں.
ليكن اس ميں كچھ ضوابط اور اصول ہيں جن كا خيال ركھنا ضرورى ہے:
اس ميں آلات لہو اور گانے بجانے كے آلات استعمال نہ كيے جائيں.
يہ كثرت سے نہ سنے اور پڑھے جائيں، اور ہر وقت يہ مسلمان كى عادت ہى نہ بن جائے، اور اس بنا پر وہ اپنے واجبات اور فرائض ہى ضائع كرنا شروع كر دے.
اور يہ عورتوں كى آواز ميں نہ ہوں، اور نہ ہى كسى حرام اور فحش كلام پر مشتمل ہوں.
اس ميں فاسق و فاجر لوگوں كے گانے كى مشابہت نہ ہو.
اور يہ ان اوازوں سے خالى ہو جو گانے بجانے كى آوازوں كے مشابہ ہو.
اور اس ميں لحن اور گائيكى نہ ہو كہ سننے والا شخص جھومنے اور ناچنے لگے، اور اسے گانے كى طرح يہ بھى فتنہ ميں ڈال دے، اور اس وقت جو ترانے ماركيٹ ميں موجود ميں ان ميں يہ چيز كثرت سے پائى جاتى ہے، حتى كہ سننے والے اس طرب اور جھوم ميں مشغول ہونے كى بنا پر ان ميں موجود عظيم و جليل معانى پر بھى غور نہيں كر سكتے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 553 - 554 ) اور ( 562 - 563 ).
مصنف ابن ابى شيبہ ( 8 / 711 ).
القاموس المحيط ( 411 ).
واللہ اعلم .