جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

لباس شہرت

104257

تاریخ اشاعت : 28-05-2008

مشاہدات : 9931

سوال

كيا كھلاڑيوں اور فنكاروں كا لباس ممنوعہ لباس شہرت ميں شامل ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لباس كے معاملہ ميں شرعى راہنمائى يہ ہے كہ لوگوں كے ليے اس سلسلہ ميں ميانہ روى اور اعتدال اختيار كرنا مستحب ہے، نہ تو اس ميں اسراف و فضول خرچى كريں، اور نہ ہى غرور و فخر اور تكبر، اور نہ ہى وہ ردى اور گندا اور پھٹا پرانا لباس زيب تن كريں.

اس ليے سب امور ميں اعتدال مندوب ہے، جس ميں لباس بھى شامل ہوتا ہے، جس سے انسان گرمى و سردى سے بچاؤ اور لوگوں كے ليے خوبصورتى و جمال اختيار كرتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے بنى آدمى تم مسجد ميں حاضرى كے وقت اپنا لباس پہن ليا كرو، اور خوب كھاؤ پيئو اور حد سے تجاوز مت كرو بے شك اللہ تعالى حد سے تجاوز كرنے والوں كو پسند نہيں كرتا الاعراف ( 31 ).

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بغير كسى اسراف و فضول خرچى اور فخر و تكبر كے كھاؤ اور صدقہ و خيرات كرو اور لباس پہنو "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2559 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:

" جو چاہو كھاؤ، اور جو چاہو پہنو، ليكن اسراف و فضول خرچى اور فخر و تكبر مت كرو " انتہى.

مصنف ابن ابى شيبۃ ( 5 / 171 ).

لباس شہرت كے متعلق خاص كر كچھ احاديث وارد ہيں جن ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ حديث ميں شامل ہے:

رسول كر يم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى دنيا ميں لباس شہرت پہنا اللہ تعالى اسے روز قيامت ذلت والا لباس پہنائيگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4029 ) اور نسائى نے سنن الكبرى ( 5 / 460 ) اور ابن ماجہ حديث نمبر ( 3606 ) اور امام احمد نے مسند احمد ( 2 / 92 ) وغيرہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى اور شيخ ارناؤوط نے اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے جس نے بھى ايسا لباس زيب تن كيا جس ميں اسراف و فضول خرچى ظاہر ہو ـ اس كے معاشرے كےمطابق فضول خرچى معلوم ہوتى ہو ـ تو اس ميں تكبر و غرور و فخر كا شائبہ پايا جاتا ہے.

يا پھر جس نے بھى ـ اپنے معاشرے كے مطابق ـ ايسا لباس پہنا جو ردى و بيكار ہو جس سے وہ زہد و عبادت محسوس كرے تو اس نے قصد و اعتدال سے تجاوز كيا اور صحيح راہ سے بھٹك گيا.

سرخسى رحمہ اللہ " المبسوط " ميں لكھتے ہيں:

" مراد يہ ہے كہ وہ انتہائى خوبصورت و قيمتى لباس مت پہنے كہ لوگ انگليوں كے ساتھ اس كى جانب اشارہ كريں، يا پھر ايسا پراگندہ اور بوسيدہ لباس زيب تن كرے كہ لوگ اس كى جانب انگليوں سے اشارہ كرنے لگيں، كيونكہ ان ميں سے ايك لباس ميں تو اسراف و فضول خرچى ہے، اور دوسرے ميں بخل اور سب سے بہتر ميانہ روي ہے " انتہى.

ديكھيں: المبسوط ( 30 / 268 ).

اور الموسوعہ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" اور اس سے بٹن لگا كر لباس پہننا مكروہ ہے كيونكہ يہ شہرت ميں شامل ہوتا ہے، اور اگر اس سے فخر و تكبر يا تواضع كا اظہار كرنا مقصود ہو تو يہ حرام ہے، كيونكہ يہ رياء كارى ہے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 136 ).

اس ميں ميزان اور مقياس لوگوں كى عادات اور جس معاشرہ ميں انسان رہتا ہے اسكا رواج ہے، اس ليے جو ان كےمعاشرہ اور عادات ميں اسراف و فضول خرچى يا پھر فخر و تكبر يا ردى اور بيكار شمار ہو يہ قابل مذمت اور مكروہ ہے، اور اس شہرت ميں شامل ہوتا ہے جس سے بعض صحابہ اور تابعين نے منع كيا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

" جس نے بھى شہرت والى چادر يا لباس شہرت زيب تن كيا تو اللہ تعالى اسے روز قيامت آگ پہنائيگا "

مصنف ابن ابى شيبۃ ( 6 / 81 ).

اور سفيان ثورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دو شہرتيں ناپسند كيا كرتے تھے: وہ اچھا لباس جس سے شہرت ہوتى ہو، اور لوگ اس كى جانب اپنى نظريں اٹھائيں، اور وہ ردى لباس جس ميں وہ حقير لگے اور اس كے دين كو نيچا سمجھا جائے "

دوم:

اور لباس شہرت ميں وہ لباس بھى شامل ہوتا ہے جو معاشرے كے رسم و رواج اور عادات كے مخالف ہو اور ناپسند كيا جائے، اور وہ لباس جو اپنى ہئيت يا رنگ ميں اس معاشرے ميں پسند نہ ہو يا اس سے مانوس نہ ہوں، جس كے نتيجہ ميں لوگ اس كے متعلق باتيں كريں اور اس كى غيبت كريں، اور اس كى نيت و مقصد كے متعلق باتيں بنائيں.

حالانكہ مسلمان شخص كو غيبت و چغلى سے منع كيا گيا ہے اور پھر مسلمان كو يہ بھى حكم ہے كہ وہ اپنے آپ سے غيبت كو روكے، ليكن ايسا لباس جسے لوگ كراہت سے نہ ديكھتے ہوں، اور اسے عجيب نہ سمجھتے ہوں، بلكہ اسے ديكھنے كے عادى ہوں يا پھر اسے قبول كرتے ہوں اگر تو وہ لباس ستر كو چھپانےوالا ہو تو پھر اسے پہننے ميں كوئى حرج نہيں.

عدى بن الفضل رحمہ اللہ كہتے ہيں مجھے ايوب كہنے لگے:

تم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جوتوں جيسے جوتے بناؤ.

وہ كہتے ہيں ميں نے ايسا ہى كيا، تو انہوں نے كچھ ايام انہيں پہنا اور پھر چھوڑ ديا، تو ميں نے اس كے بارہ ميں انہيں كچھ كہا تو وہ كہنے لگے:

ميں ديكھتا ہوں كہ لوگ انہيں نہيں پہنتے " انتہى.

اسے ابن ابى الدنيا نے التواضع و الخمول ( 62 ) ميں روايت كيا ہے.

اور حصين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

زبيد اليامى نے برانڈى ( برنس ) پہنى، وہ كہتے ہيں تو ميں نے ابراہيم نخعى رحمہ اللہ كو اس پر انہيں عيب لگاتے ہوئے سنا.

راوى كہتے ہيں: تو ميں نے انہيں كہا: لوگ يہ پہنا كرتے تھے، تو انہوں نے جواب ديا جى ہاں! ليكن جو لوگ يہ پہنا كرتے تھے وہ فوت ہو چكے ہيں، اور اگر آج كوئى يہ پہنے تو لوگ اسے شہرت ديں گےاور اس كى طرف انگليوں سے اشارے كرينگے "

مصنف ابن ابى شيبۃ ( 6 / 81 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہيں:

" ايسا لباس زيب تن كرنا جو لوگوں كى عادات و رسم و رواج كے خلاف ہو مكروہ ہے، كيونكہ اسميں شہرت پائى جاتى ہے يعنى اس سے وہ لوگوں كے ہاں مشہور ہو گا، اور لوگ اس كى جانب انگليوں سے اشارہ كرينگے، اس ليے مكروہ ہے تا كہ يہ چيز انہيں اس كى غيبت كرنے پر نہ ابھارے، اور وہ اس كى غيبت كر كے گناہ كے مرتكب ہوں.

لسان العرب ميں ہے:

شہرت يہ ہے كہ: قباحت ميں كسى چيز كا ظاہر ہونا حتى كہ لوگ اسے مشہور كر ديں " انتہى مختصرا.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 136 - 137 ).

سوم:

ہمارے اس دور ميں لباس شہرت كے حكم پر كئى ايك اسباب و عوامل مؤثر ہيں، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

1 - لوگوں كى حالت ميں وسعت كا آ جانا، اور دنيا بكثرت حاصل ہونا، اور ان كے ہاتھوں ميں مال پھيلنا، جس كى بنا پر ان كے ليے اچھے اور قيمتى قسم كے لباس خريدنے ميں آسانى ہو گئى ہے.

2 - آج كل كئى قسم اور مختلف شكلوں ميں صنعت كا پھيل جانا، اور كئى قسم كے لباس ماركيٹ ميں آ جانا، چنانچہ لاكھوں فيكٹرياں روزانہ نت نئے ڈيزائن تيار كرتى ہيں جو آج كل دنيا كے كونےكونےميں پھيل رہے ہيں، لہذا لوگ ہر نئى چيز پہننے كے عادى ہو گئےہيں، اور ہرتبديل كى قبول كرنے لگے ہيں، اور ايسے لباس بہت كم ہيں جنہيں معاشرے مطلقا قبول نہيں كرتے.

3 - جنسيں اور قوموں كا آپس ميں اختلاط، اور ملكوں ميں لوگوں كا كثرت سے سفر كرنا، چنانچہ كوئى بھى ملك اپنے باسيوں پر ظلم كرنے والا شمار نہيں ہوتا، بلكہ ايك ملك ہى اپنے اندر مشرق و مغرب كے رہنے والوں كى ايك بڑى تعداد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جو ايسا لباس قبول كرنے ميں اثرانداز ہونے كا سبب ہے.

4 - پھر ميڈيا مختلف شكل ميں اتنا پھيل چكا ہے جس كا اس مختلف قسم كے نوع و اشكال والے لباس اور اسے لوگوں ميں منتقل كرنے ميں بہت زيادہ اثر ہے، اور لوگ اس سلسلہ ميں ايك دوسرے سے استفادہ كرتے ہيں.

يہ سب شرعى لباس كى فقہ ميں اثرانداز ہوا ہے، چنانچہ شريعت مطہرہ نے معاملہ كو لوگوں كے عرف و عادات كى جانب پلٹايا ہے، جو كہ اوپر بيان كردہ چار عوامل و اسباب كى بنا پر متاثر ہو چكى ہيں، جس نے سابقہ دور اور صديوں ميں پائے جانے والے لباس كے حكم ميں بہت سارى تبديلى كر كے ركھ دى ہے.

چنانچہ ہمارى رائے ميں كھلاڑيوں كا لباس ـ اگر وہ مكمل ستر پوشى كرتا ہو ـ يا انگريزى سوٹ، يا مختلف قسم كے كاريگروں اور معين پيشہ والوں كا لباس مثلا ڈاكٹر حضرات كا لباس، يا پھر قاضيوں اور عام ملازمين اور مزدوروں كا لباس مذموم شہرت ميں شامل نہيں ہوتا، اور اصلا يہ شہرت كے معنى پر محمول نہيں ہے، نہ تو اسراف و فضول خرچى اور فخر و تكبر كے اعتبار سے، اور نہ ہى معاشرے كى مخالفت كے اعتبار سے.

ليكن اگر كسى نے ايسے معاشرے ميں يہ لباس زيب تن كيا جس نے اپنى ثقافت و عادات كو محفوظ ركھا ہو، اور وہ ان سابقہ چار عوامل و اسباب سے متاثر نہ ہوا ہو تو وہ اپنى قوم ميں عجيب و غريب نظروں سے ديكھا جائيگا، تو اس شخص كے حق ميں يہ لباس مكروہ ہے، اور اسے ايسا لباس زيب تن نہيں كرنا چاہيے جو اس كى عادات و ثقافت كے مخالف ہو، اور اگر اس نے اس سے رياء و دكھلاوا اور تزكيہ نفس كا مقصد ركھا، يا پھر زہد كا اظہار يا تكبر و غرور فخر ظاہر كرنا چاہا تو وہ گنہگار ہو گا، اور اس كے ليے يہ لباس پہننا حرام ہو گا.

چہارم:

يہ مخفى نہيں كہ سب سے اہم شرط جو سابقہ كلام كو مقيد كرتى ہے وہ يہ كہ: لباس ستر كو مكمل چھپانےوالا ہو، نہ تو شفاف اور باريك ہو كہ جلد اور ستر كا رنگ واضح كرے، اور اسى طرح حجم بھى واضح نہ كرتا ہو، اور نہ ہى اس ميں دوسرے مذاہب و اديان كے لباسوں سے مشابہت ہوتى ہو، اور نہ وہ عورتوں، يا فاسق و فاجر كے لوگوں كے لباس سے مشابہت ركھتا ہو، اور نہ ہى مردوں كے لباس ميں ريشمى لباس ہو، اگر اس ميں يہ شروط نہ پائى جائيں تو پھر وہ لباس زيب تن كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى خريد و فروخت جائز ہے.

آج جو لباس كھلاڑى پہنتے ہيں اس پر غور كيا جائے تو اكثر كھلاڑيوں كا لباس شرعى طور پر مطلوب قواعد و ضوابط پر پورا نہيں اترتا، يا تو وہ لباس اتنا چھوٹا ہوتا ہے كہ ران كا اكثر حصہ بلكہ پورى ران ہى ننگى ہوتى ہے، يا پھر اتنا تنگ ہوتا ہے كہ شرمگاہ كا حجم واضح كرتا ہوا نظر آتا ہے، تو اس طرح كا لباس زيب تن كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ شرعى قواعد و ضوابط كے مخالف ہے.

اور جو شخص گانے بجانے اور فنكاروں اور اداكاروں جيسا لباس زيب تن كرنے كا ارادہ ركھتا ہے، تو شر و فساد كے باب نے اس نے بہت كچھ فتنہ و شر اكٹھا كر ليا، جب وہ ان فاسق و فاجر اور معصيت ميں ڈوبے ہوئے لوگوں كى مشابہت اختيار كرنے كى كوشش كر رہا ہے.

حالانكہ اس پر واجب تو يہ تھا كہ وہ معصيت و نافرمانى كو ناپسند اور اس سے كراہت كرتا، اور ان كے شعار و علامت اور لباس سے بغض ركھتا، اور اس فتنہ ميں پڑے ہوئے اور ايسے لوگوں سے اجتناب كرتا اور ان سے دور رہتا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ).

اس ليے ايسا لباس وغيرہ زب تن كرنا جائز نہيں جو گانے بجانے اور اداكاروں اور موسيقاروں كا امتياز ہو، اصل ميں تو مسلمان شخص كو ايسے شخص كى نقل كرنى چاہيے جو علم و فضل اور تقوى والا ہو، ليكن معصيت و نافرمانى والے شخص كى نقالى كرنا اللہ تعالى كى ناراضگى اور غضب كا سبب ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 36891 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب