جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

رمضان ميں بغير عذر روزہ چھوڑنے كى صورت ميں كفارہ كب واجب ہو گا ؟

سوال

ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ رمضان المبارك ميں روزہ چھوڑنے كى صورت ميں كفارہ كب واجب ہوتا ہے، ميں نے اس موضوع پر سرچ كى تو نتيجہ ميں دو رائے سامنے آئيں:
پہلى رائے: قضاء اور كفارہ صرف جماع كرنے سے واجب ہوتا ہے، اس كى دليل سنت نبويہ كى معروف حديث ہے.
دوسرى رائے يہ ہے كہ جو چيز بھى معدہ ميں عمدا چلى جائے اس سے كفارہ اور قضاء واجب ہو جاتى ہے، اس كے علاوہ جماع كے ساتھ بھى.
ليكن مجھے كتاب و سنت سے اس كى كوئى دليل نہيں ملى، اس ليے برائے مہربانى آپ سے گزارش ہے كہ ميرے سوال كا كتاب و سنت سے مدلل شافى جواب عنائت فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيوى سے ماہ رمضان ميں روزے كى حالت سے اپنى بيوى كے ساتھ عمدا جماع كرنے والے ديہاتى شخص پر كفارہ واجب كيا جو كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس حكم كے دائرہ كار كو واضح كرتا ہے، اور اس كى علت كى نص ہے.

فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ اعرابى اور ديہاتى ہونا كوئى علت نہيں اور نہ ہى اس كا كوئى مفہوم ہے، اور حكم پر اس كى كوئى تاثير نہيں.

اس ليے اگركوئى تركى اپنى بيوى سے جما كرے يا كوئى اور عجمى شخص تو اس پر بھى كفارہ واجب ہوگا، اور فقھاء كرام اس پر بھى متفق ہيں كہ يہاں بيوى كا وصف بھى ويسے ہى ہے اس ليے اس كا بھى اعتبار نہيں ہوگا، لہذا اگر كوئى شخص اپنى لونڈى سے جماع كرے تو بھى كفارہ واجب ہوگا اور اسى طرح اگر روزے كى حالت ميں زنا كا مرتكب ہو تو بھى كفارہ واجب ہوگا.

اور فقھاء اس پر بھى متفق ہيں كہ وطئ كرنے والے كا نادم ہو كر آنا بھى كفارہ كے وجوب پر كوئى اثر انداز نہيں ہوگا، اس ليے حكم پر اس كا بھى كوئى اعتبار نہيں كيا جائيگا كہ وہ اپنے كيے پر نادم ہے لہذا كفارہ واجب نہ كيا جائے.

ليكن فقھاء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا صرف جماع كے ساتھ روزہ توڑنا ہى كفارہ واجب ہونے كا باعث ہے يا كہ اس ميں عمدا روزہ توڑ كر رمضان المبارك كى حرمت پامل كرنے كا بھى اعتبار ہوگا، يعنى كھانے پينے سے بھى كفارہ واجب ہو گا يا نہيں.

امام شافعى اور امام احمد رحمہم اللہ كے ہاں تو صرف جماع ہى باعث كفارہ ہے، ليكن امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ اور ان كى موافقت كرنے والوں كے ہاں عمدا روزہ توڑ كر رمضان المبارك كى حرمت پامل كرنے سے بھى كفارہ واجب ہو گا.

دونوں فريقوں كے ہاں اختلاف كا سبب حكم كا دائرہ كار كى تنقيح ہے كہ آيا يہ رمضان كے روزے كو خاص كر جماع كے ساتھ توڑ كر روزے كى حرمت پامال كرنے كى وجہ سے ہے يا كہ مطلقا روزہ عمدا توڑ كر روزے كى حرمت پامال كرنے سے چاہے كھانے پينے سے ہى توڑا گيا ہو؟

نص يعنى حديث كے ظاہر كو ديكھتے ہوئے صحيح يہى ہے كہ جماع كے ساتھ روزہ توڑ كر روزے كى حرمت پامال كرنے كى وجہ سے كفارہ واجب ہوتا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ كفارہ كے وجوب سے برى الذمہ ہے حتى كہ اس كے واجب ہونے كى كوئى واضح دليل نہ مل جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

لجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء .

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب