ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

اگر كوئى شخص كھانا كھا كر روزہ توڑ كر بيوى سے جماع كرے تو اس پر كفارہ ہو گا

سوال

ايك شخص رمضان المبارك ميں دن كے وقت بيوى سے جماع كرنا چاہتا ہو، اور وہ كھانا كھا كر روزہ توڑے اور پھر بيوى سے جماع كر لے تو كيا اس پر كفارہ ہو گا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ جس نے بھى رمضان المبارك ميں جماع كر كے روزہ توڑا اس پر كفارہ ہو گا.

ليكن ان كا اس ميں اختلاف ہے كہ اگر كوئى شخص جماع كے علاوہ كسى اور چيز سے روزہ توڑے تو كيا اس ميں كفارہ لازم آيا ہے يا نہيں ؟

اس مسئلہ ميں امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ كہتے ہيں كہ اس پر بھى كفارہ ہو گا.

اور امام شافعى اور امام احمد رحمہما اللہ كہتے ہيں كہ اس پر كفارہ نہيں.

ليكن يہ تو اس شخص كے متعلق ہے جو روزہ جماع كے علاوہ كسى اور چيز كے ساتھ توڑے اور پھر اس دن جماع بھى نہ كرے، ليكن اگر وہ جماع كے علاوہ كسى دوسرى چيز كے ساتھ روزہ توڑ كر اسى دن جماع بھى كرتا ہے تو جمہور علماء ( جن ميں ابو حنيفہ مالك اور احمد شامل ہيں ) كے ہاں اس پر كفارہ واجب ہے.

يہى وہ قول ہے جس كے علاوہ كوئى اور فتوى نہيں دينا چاہيے، اس قول كے صحيح ہونے كى دليل درج ذيل امور ہيں:

1 ـ جس نے بھى رمضان المبارك بغير كسى عذر كھانے پينے يا كسى اور چيز كے ساتھ روزہ توڑا تو اسے باقى سارا دن بغير كھائے پيے رہنا واجب ہے، اور اگر وہ اس دن ميں بيوى سے جماع كرتا ہے تو اس نے ايسے دن ميں جماع كيا جس كا اس پر روزے كا احترام كرتے ہوئے ان اشياء سے احتراز كرنا لازم تھا، اس ليے اس پر كفارہ واجب ہے.

بالكل اسى طرح جس طرح حج كے احرام والا شخص جب اپنا احرام فاسد كرے تو اس كو وہ احرام جارى ركھنا لازم ہوتا ہے، اور احرام كى ممنوعہ اشياء سے اجتناب كرنا ہوتا ہے، اور اگر وہ كسى بھى ممنوعہ كام كا ارتكاب كرے تو اس پر وہى لازم ہے جو صحيح احرام والے پر لازم ہوتا ہے.

2 ـ يہ شخص تو پہلے روزہ توڑنے پر گنہگار ہے، اور پھر اس نے دوسرا گناہ جماع كا كيا، تو اس طرح اس نے ڈبل گناہ كيا ہے اور اس پر يقينى كفارہ ہو گا.

3 ـ اگر اس طرح كے شخص پر كفارہ واجب نہ ہو تو يہ چيز ہر ايك كے ليے كفارہ نہ ادا كرنے كا ذريعہ بن جائيگا، كيونكہ جو بھى رمضان ميں اپنى بيوى سے جماع كرنا چاہے تو وہ پہلے كھانا كھا كر روزہ توڑ لے گا، اور پھر بيوى سے جماع كريگا، بلكہ يہ چيز تو اس كے مقصد ميں معاون ثابت ہو گى.

تو كھانے سے قبل جماع كرنے ميں تو اس پر كفارہ ہو اور كھانے كے بعد جماع ميں كفارہ نہ ہو! يہ چيز تو بہت ہى غلط ہے ايسى چيز تو شريعت كہيں بھى نہيں لائى، كيونكہ عقل اور اديان ميں يہ بات پائى جاتى ہے كہ گناہ جتنا بڑا ہو گا سزا بھى اتنى ہى بڑى ہوگى.

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 25 / 260 - 263 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب