اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زير ناف بال صاف كرنے كى تعليم دينے كے ليے اولاد كے سامنے شرمگاہ ننگا كرنا

سوال

ميرا ايك سوال ہے كہ: والد نے اپنى شرمگاہ ننگى كر كے اپنے بيٹوں كو بلوغت كے بعد زيرناف بال صاف كرنے كى كيفيت بتائى اور كہنے لگا كہ اس نے جو كچھ كيا ہے وہ اسلام ميں مستحب ہے، باپ نے جو كچھ كيا ہے كيا وہ صحيح ہے يا كہ حرام كام تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

باپ نے بيٹوں كے سامنے اپنى شرمگاہ ننگى كر كے حرام فعل كا ارتكاب كيا ہے، كيونكہ انسان كے ليے اپنى شرمگاہ چھپانى فرض ہے، ليكن وہ اپنى بيوى يا اپنى لونڈى كے سامنے ننگى كر سكتا ہے.

اسى طرح كسى دوسرے كى شرمگاہ ديكھنا بھى حرام ہے صرف انتہائى شديد ضرورت كى بنا پر ايسا كيا جا سكتا ہے مثلا علاج معالجہ كے ليے.

زير ناف بال مونڈنے كى تعليم دينا ضرورت يا ايسى چيز شمار نہيں ہوتى كہ اس كے ليے شرمگاہ ننگى كرنا مباح ہو؛ كيونكہ اولاد كو كلام كے ذريعہ بھى اس كے بارہ ميں بتايا جا سكتا ہے، اور اسى طرح بال زائل كرنے والى مختلف كريم وغيرہ كے ساتھ بھى بال زائل كرنے كے بارہ ميں راہنمائى دى جا سكتى ہے.

صريح اور صحيح نصوص سے ثابت ہے كہ مرد كسى دوسرے مرد اور عورت كسى دوسرى عورت كى شرمگاہ نہيں ديكھ سكتا اس كے ليے ايسا كرنا حرام ہے، اور پھر علماء كرام بھى اس حرمت پر متفق ہيں.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى بھى مرد كسى دوسرے مرد كى شرمگاہ نہ ديكھے اور نہ ہى كوئى عورت كسى عورت كى شرمگاہ ديكھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 338 ).

اور امام ترمذى اور ابو داود اور ابن ماجہ نے بہز بن حكيم عن ابيہ عن جدہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ہم اپنى شرمگاہ ميں كيا كچھ چھپائيں اور كيا نہ چھپائيں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنى بيوى اور اپنى لونڈى كے علاوہ اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرو "

ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر لوگ آپس ميں بيٹھے ہوئے ہوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اگر تم ايسا كر سكو كہ اسے كوئى نہ ديكھے تو پھر اسے كوئى بھى نہ ديكھے.

راوى كہتے ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كوئى اكيلا ہو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اللہ تعالى زيادہ حق ركھتا ہے كہ لوگوں سے زيادہ اللہ سے شرم حياء كى جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2794 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4017 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1920 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" كوئى مرد كسى مرد كى شرمگاہ كو نہ ديكھے، اور نہ ہى كوئى عورت كسى عورت كى شرمگاہ كو ديكھے "

اس حديث ميں مرد كے ليے مرد كى شرمگاہ اور عورت كے ليے عورت كى شرمگاہ ديكھنے كى حرمت بيان كى گئى ہے اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے.

اور اسى طرح مرد كا كسى عورت كى شرمگاہ ديكھنا اور عورت كا كسى مرد كى شرمگاہ ديكھنا بھى بالاجماع حرام ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد كا عورت كى شرمگاہ كو ديكھنے پر تنبيہ كرتے ہوئے مرد كا كسى دوسرے مرد كى شرمگاہ ديكھنے پر كى ہے، تو يہ عورت كى شرمگاہ ديكھنا بالاولى حرام ہوئى.

يہ حرمت خاوند اور لونڈى اور غلام كے مالك كے ليے نہيں ہے، كيونكہ خاوند اور بيوى دونوں ايك دوسرے كى شرمگاہ ديكھ سكتے ہيں " انتہى

اس ليے اس باپ كو چاہيے كہ وہ اپنے اس حرام فعل پر اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرے، اور آئندہ پختہ عزم كرے كہ وہ ايسا كبھى نہيں كريگا، اور اسے چاہيے كہ وہ اپنى اولاد كى تربيت حسن اخلاق اور شرم و حياء پر كرے، اور يہ قبيح اور شرم و حياء سے عارى اعمال ترك كر دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب