الحمد للہ.
احرام کی حالت میں ممنوعہ کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے فدیہ لازم ہو جائے تو اس کی ادائیگی میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ حدود حرم میں ادا کرے یا جہاں پر اس نے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیا ہے وہیں پر ادا کرے۔ البتہ شکار کا فدیہ حدود حرم میں ہی ادا کرنا ہوگا۔
"الروض المربع" میں ہے کہ:
"احرام کی حالت میں فدیۃ الاذی یعنی مجبوری کی حالت میں بال کاٹنے، اور عام لباس پہننے یا اسی طرح کے دیگر ممنوعہ امور سر انجام دینے کا فدیہ مثلاً: خوشبو لگانا،سر ڈھانپ لینا، یا حدود حرم سے باہر کوئی بھی ممنوعہ کام کر لیا ، اسی طرح کسی بھی وجہ سے حرم تک جانے سے روک دیا گیا تو [ان تمام صورتوں میں]: اندرون حدود حرم یا بیروں حدود حرم جہاں بھی ممنوعہ کام ہوا وہیں پر فدیہ دینا ہوگا؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنا جانور ذبح کر دیا تھا اور حدیبیہ حدود حرم سے باہر ہے، نیز فدیہ حرم میں بھی دے سکتے ہیں۔
جبکہ روزے اور بال منڈوانے کا کام کہیں بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ روزوں اور بال منڈوانے میں کوئی ایسا فائدہ نہیں ہے جو کسی اور تک بھی پہنچے [جیسے جانور ذبح کرنے میں ہے کہ اس جگہ کے لوگوں کو اس کا گوشت مل جائے گا]، اس لیے انہیں کسی جگہ کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "شرح الکافی" کہتے ہیں:
"شکار کے علاوہ کسی ممنوعہ کام کے ارتکاب کی وجہ سے جو فدیہ وغیرہ لازم ہوا ہے جیسے کہ سر مونڈنا، کپڑے پہن لینا وغیرہ کی وجہ سے تو اس میں [حنبلی] فقہی مذہب کے مطابق اس شخص کو اختیار دیا جائے گا کہ جہاں اس سے ممنوعہ کام کا ارتکاب ہوا ہے وہیں پر فدیہ ادا کرے ؛ کیونکہ غلطی وہیں پر ہوئی ہے، یا پھر اسے مکہ میں فدیہ دینے کا اختیار دیا جائے گا؛ کیونکہ اصولی طور پر تمام ہدی کے جانور کعبہ کی جانب بھیجے جاتے ہیں، [حنبلی] فقہی مذہب یہی ہے اور یہی موقف صحیح ہے کہ انسان کو اختیار دیا جائے کہ شکار کے علاوہ ممنوعہ کام کے ارتکاب کی وجہ سے واجب ہونے والے فدیے کو اسی جگہ پر ادا کرے کہ فدیے کا موجب بننے والا عمل اس جگہ پر ہوا تھا، یا پھر فدیہ مکہ منتقل کیا جائے ؛ کیونکہ اصل یہی ہے کہ ہدی کے جانور مکہ ہی بھیجے جاتے ہیں" انتہی
واللہ اعلم.