جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا ميڈيكل چيك اپ اور خون ٹيسٹ كرنے سے استبراء رحم ہو جائيگا؟

115386

تاریخ اشاعت : 13-12-2010

مشاہدات : 5809

سوال

برائے مہربانى يہاں انڈونيشيا ميں ايك فقير خاندان كى مشكل حل كرنے ميں ميرى مدد كريں، وہ مشكل يہ ہے كہ اس خاندان كى ايك بيوہ بيٹى كے تين بيٹے ہيں اس نے ( 2007 ) ميں ايك مسلمان شخص سے دوسرى شادى كى جس سے ( 8 دسمبر 2007 ) ميں ايك بچہ پيدا ہوا، ليكن اس كا خاوند اسے زدكوب كرتا تھا، اور اسى طرح اس كے كچھ كام بھى غلط تھے حتى كہ وہ نماز بھى ادا نہيں كرتا تھا، اور وہ لڑكيوں كے پيچھے بھاگتا تھا ( ابھى اس كى عمر اتنى زيادہ نہيں ).
اس عورت كى حالت اچھى نہ ہونے كى بنا ميں نے اس كے خاندان نے اس كى مشكل حل كرنے كى كوشش كى، اور كم از كم انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ اس كے ليے كوئى اور خاوند تلاش كيا جائے. انہوں نے موجودہ خاوند سے بہتر ايك شخص حاصل كر ليا اور وہ بھى اس عورت اور اس كى اولاد كا خيال كرنے پر تيار ہے، اور اس سے دينى اور معاشرتى طور پر بھى بہتر ہے، اس كا ارادہ ہے كہ وہ گھر كے اخراجات اور بچوں كى تعليم كے اخراجات برداشت كريگا، اس بنا پر عورت صرف خلع حاصل كر لے، كيونكہ يہى ايك حل ہے.
اور اٹھارہ فرورى كو اس عورت كا خاوند بغير كسى مشكلات كے اس پر موافق ہوا اب وہ خاندان شادى پروگرام كے ذريعہ اللہ كى مدد چاہتا ہے، ليكن يہاں ايك اور آزمائش ہے وہ يہ كہ جس شخص نے اس كا رشتہ قبول كيا ہے وہ مارچ كى ابتدا يعنى چار مارچ تك عقد نكاح كرنا چاہتا ہے، كيونكہ اس نے ملازمت سے شادى كے ليے ايك ہفتہ كى چھٹى لى ہے، اور اب وہ كہتا ہے كہ شادى اس تاريخ سے مؤخر كرنے ميں ملازمت كے ليے نقصان ہوگا.
حتى كہ اس كا كہنا ہے كہ اگر شادى ميں تاخير ہوئى تو ہو سكتا ہے وہ اپنى رائے بھى بدل لے، اس شخص نے بھى اپنى بيوى كو طلاق دے دى ہے جو دوسرے خاوند كے پاس جا چكى ہے اس كى وجہ سے بھى وہ بہت غمگين ہے، جب اس نے ا س بيوہ اور اس كے بچوں كا قصہ اور حال سنا تو اس نے دوسرى شادى كرنے كا سوچا، كيونكہ اس كا اعتقاد ہے كہ ايك مومن عورت ہى ايك اسلامى گھر تعمير كر سكتى ہے، سوال يہ ہيں كہ:
يہ علم ميں رہے كہ خلع كى عدت ايك ماہ ہے، ليكن اس بيوہ كو ولادت كے بعد ابھى تك حيض نہيں آيا ولادت آٹھ دسمبر ( 2008 ) كو ہوئى تھى، ( يہ نفاس كے چاليس يوم بعد ختم ہوئى تھى ) چنانچہ اس كى عدت كيسے شمار ہو گى ؟
ہميں يہ معلوم ہے كہ ايك حيض عدت كى حكمت يہ ہے كہ حمل كے بارہ ميں علم ہو جائے كہ حمل ہے يا نہيں، جب اسے حيض آ جائے تو يہ يقين ہو جائيگا كہ عورت حاملہ نہيں ( جيسا كہ سيد سابق نے فقہ السنہ ميں كہا ہے )، كيا حيض كا انتظار كيے بغير حمل نہ ہونے كے بارہ ميں ميڈيكل چيك اپ پر انحصار كيا جا سكتا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس حالت ميں كئى ماہ كے بعد ہى حيض آ ئے ؟
برائے مہربانى اس چيز كو مد نظر ركھيں كہ اميد ہے كہ يہ شادى دين اور اس خاندان كے معاشرتى مصلحت كى خاطر ہے جن ميں سب سے پہلے تو وہ بيوہ اور اس كے بچے شامل ہوتے ہيں، ہم اميد كرتے ہيں كہ ہمارے علماء كرام اس مشكل كا شريعت ميں كوئى نہ كوئى حل ضرور پائينگے.
ميں يہاں يہ يقين دلانا چاہتا ہوں كہ ميں ان لوگوں كو ذاتى طور پر جانتا ہوں، اور اوپر جو بھى معلومات بيان ہوئى ہيں وہ سب صحيح ہيں، اور پھر مسئلہ يہ نہيں كہ اس عورت كى شادى كے ليے كسى بھى اسلوب سے غلط معلومات فراہم كر كے فتوى حاصل كرنا نہيں ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

راجح قول كے مطابق خلع حاصل كرنے والى عورت كے ليے ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كرنا لازم ہے، جيسا كہ سوال نمبر ( 5163 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

دوم:

جب كسى معلوم سبب مثلا رضاعت كى بنا پر حيض نہ آئے تو حيض واپس آنے كا انتظار كرنا ضرورى ہے تا كہ عورت اس سے عدت پورى كرے چاہے اس كى مدت بہت زيادہ اور لمبى بھى ہو جائے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن جب عورت كو معلوم ہو كہ اسے كسى بيمارى يا نفاس يا رضاعت كى بنا پر حيض نہيں آ رہا تو وہ انتظار اس مرض اور سبب كے زائل ہونے اور خون آنے كا انتظار كرے چاہے انظار لمبا ہو، الا يہ كہ وہ نااميدى كى عمر يعنى اس عمر ميں پہنچ جائے جس ميں حيض نہيں آتا تو پھر اسے نااميد عورتوں والى عدت گزارنا ہوگى.

امام شافعى رحمہ اللہ سے مسند شافعى ميں ان كى سند سے جبان بن منقذ سے مروى ہے كہ انہوں نے اپنى بيوى كو ايك طلاق دے دى اور اس كى ايك بيٹى بھى تھى جسے وہ دودھ پلا رہى تھى، چنانچہ اس كے حيض كى مدت زيادہ ہوگئى اور جبان بيمار ہو گئے تو انہيں كہا گيا:

اگر تم فوت ہو گئے تو وہ آپ كى وارث ہوگى، تو وہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گئے اور عثمان رضى اللہ عنہ كے پاس زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ بھى تھے انہوں نے عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے اس كے متعلق دريافت كيا تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے زيد اور على رضى اللہ تعالى عنہما كو فرمايا:

" تم دونوں كى رائے كيا ہے ؟

تو دونوں نے فرمايا: ہمارى رائے تو يہى ہے كہ اگر وہ عورت فوت ہو گئى تو يہ اس كے وارث ہونگے، اور اگر يہ فوت ہو گيا تو وہ اس كى وارث ہوگى؛ كيونكہ وہ عورت ان ميں شامل نہيں جو حيض سے نااميد ہوچكى ہوں، اور نہ ہى ان لڑكيوں ميں شامل ہوتى ہے جو ابھى حيض كى عمر تك نہيں پہنچيں "

تو جبان اپنے گھر گيا اور اس سے اپنى بچى چھين لى تو اس كى مطلقہ بيوى كو حيض واپس آ گيا، اور جب اسے دو حيض ہى آئے تھے كہ تيسرا حيض آنے اور عدت ختم ہونے سے قبل ہى جبان فوت ہو گيا، تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے اس عورت كو جبان كا وارث بنايا " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 216 ).

استبراء رحم كے ليے صرف ميڈيكل چيك اپ پر اكتفا كرنا جائز نہيں، بلكہ ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم كرنا ضرورى ہے.

مستقف فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميڈيكل كے جديد وسائل كے ذريعہ استبراء رحم كرانے كے بارہ ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے ہى عبادات و نكاح اور معاملات ميں احكام و قوانين مشروع كيے ہيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى كو ہى ہر اس چيز كا كمال علم حاصل ہے جو ہو چكى اور جو ہوگى اللہ تعالى نے استبراء رحم كے ليے نئے اور جديد ميڈيكل آلات كے ذريعہ استبراء رحم كا طريقہ مشروع نہيں كيا ( اور آپ كا رب بھولنے والا نہيں ) چنانچہ قرآن و سنت سے جو طريقہ استبراء رحم كا ثابت اور مشروع ہے اور اس كى شرح كتب فقہ نے كى ہے اس كے بدلے كسى اور طريقہ سے استبراء رحم كرنا كفائت نہيں كريگا "

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز..

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 487 ).

اس ليے اس عورت كے ليے اس وقت تك نكاح كرنا جائز نہيں جب تك اسے ايك حيض نہ آ جائے، چاہے اس كى شادى ايك ماہ تاخير سے بھى ہو؛ انسان كو يہ علم نہيں كہ اس كے ليے كيا لكھا گيا ہے، ہو سكتا ہے اس كے ليے اس شخص سے شادى كرنا بہتر ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس سے شادى بہتر نہ ہو.

يہاں ہم ايك چيز پر متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ اس شخص يا كسى اور آدمى كے ساتھ اس وقت تك اتفاق كرنا جائز نہيں جب تك وہ اپنے خاوند كے نكاح ميں ہے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمان شخص كو منع فرمايا ہے كہ وہ اپنے مسلمان بھائى كى منگنى پر منگنى مت كرے، تو پھر اس كے ليے يہ كيسے جائز ہو سكتا ہے كہ كسى شخص كى عصمت ميں موجود عورت يعنى اس كى بيوى سے منگنى كر لے؟!

اس عورت كو اپنے خاوند سے طلاق يا خلع لينے كى كوشش كرنى چاہيے وہ بھى اگر چاہتى ہو، پھر جب عدت ختم ہو جائے تود وسرا خاوند تلاش كرے، يا پھر جو شخص اس سے شادى كرنا چاہتا ہو وہ اس كا رشتہ طلب كرے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس عورت كو ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب