منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسلام اور سابقہ ادیان میں "یوم عاشوراء" اور رافضیوں کے مطابق اسے اموی بدعت کہنے کا ردّ۔

سوال

کیا جس دن یوم عاشوراء کا ہم روزہ رکھتے ہیں یہ عاشوراء کا صحیح دن نہیں ہے؟ کیونکہ میں نے آج پڑھا ہے کہ صحیح دن عبرانی کیلنڈر کے مطابق ماہِ تشری کی دس تاریخ کو بنتا ہے، اور بنو امیہ کے خلفاء نے اس دن کو تبدیل کر کے ماہِ محرم میں کیا تھا، ماہِ تشری یہودیوں کے عبرانی کیلنڈر کے مطابق پہلا مہینہ ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

1-  یوم عاشوراء کا دن جس میں ہم روزہ رکھتے ہیں  یہ وہی دن ہے، جس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو  نجات دی تھی، یہی  وہ دن ہے  جس میں  یہودیوں کے ایک گروہ نے [عہد نبوی میں ]مدینہ میں رہتے ہوئے  روزہ رکھا تھا، اور اسی دن ابتدائی دور میں روزہ رکھنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیا گیا، پھر رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس دن روزہ رکھنے کا وجوب ختم کر دیا گیا، اور اس طرح سے عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب قرار دیا گیا۔

اور یہ دعوی کرنا کہ بنو امیہ کے کچھ خلفاء نے اسے ماہِ محرم میں  منتقل کیا ، یہ رافضی لوگوں کی بات ہے، اور یہ رافضیوں کی طرف سے ایسے جھوٹ  کے پلندوں  کا حصہ ہے جن پر انکا دین قائم ہے، ویسے بھی انکے عقیدے میں یہ چیز شامل ہے کہ ہر غلط چیز کی نسبت بنو امیہ کی طرف کر دی جائے، اور انہی کے زمانے سے منسلک کر دی جائے۔

اگر بنو امیہ  خود ساختہ احادیث بنا کر شریعت کی طرف  منسوب کرنا بھی چاہتے تو وہ اس دن کے بارے میں  یہ کہتے کہ عاشوراء کا دن عید کا دن ہے، روزے رکھنے کا دن نہیں ہے، کیونکہ روزے کے دن میں انسان اپنے آپ کو کھانے پینے، اور جماع وغیرہ سے روکتا ہے، چنانچہ روزے کے دوران انسان کیلئے مباح چیزیں بھی منع ہوتی ہیں، جبکہ عید  خوشی منانے کیلئے ہوتی ہے، جس میں مباح چیزوں کو خوب استعمال کیا جاتا ہے۔

2- بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ میں ہجر ت کر کے ربیع الاول کے ماہ میں تشریف لائے  تھے، محرم میں نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ  یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ، اور جس وقت ان سے انکے روزے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسی [علیہ السلام] اور انکے رفقاء کو پانی میں غرق ہونے سے بچایا تھا، تو ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں"

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائے تو [آئندہ سال]انہیں عاشوراء کے روزے کی حالت میں پایا، اور انہوں نے کہا کہ : "یہ ہمارے لئے بڑا عظیم دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسی [علیہ السلام ] کو نجات دی، اور آل فرعون کو پانی میں غرق کیا، تو موسی [علیہ السلام] نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (میرا تعلق موسی [علیہ السلام]کیساتھ اِن سے زیادہ ہے، تو آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا)
بخاری ( 3216 )

یہاں یہ مسئلہ ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودیوں کو ربیع الاول میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تھا یا آئندہ سال محرم میں دیکھا تھا؟

اہل علم کے اس بارے میں دو اقوال ہیں، اور اس میں راجح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں آئندہ سال دیکھا تھا، اور اسی وقت یہ  بات  چیت ہوئی تھی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی طرف سے محرم کے ماہ میں روزے رکھنے کا حکم  آئندہ سال صادرہوا تھا، اس طرح سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہودی اس وقت قمری مہینوں پر اعتماد کرتے تھے۔

چنانچہ ابن  قیم  رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
کچھ  لوگوں کو یہ  عجیب لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ربیع الاول کے ماہ میں مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کیسے کہہ رہے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہود کو  عاشوراء کے دن روزے کی حالت میں پایا"
اسکے جواب میں ابن قیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"پہلا مغالطہ کہ "جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ آئے تو یہودی روزے سے تھے" حقیقت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ جس دن آپ مدینہ پہنچے تو اسی دن یہودیوں نے روزہ رکھا ہوا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تو مدینہ میں 12 ربیع الاول سوموار کے دن  پہنچے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کو سب سے پہلے یہودیوں کے روزوں کے بارے میں دوسرے سال علم ہوا تھا، آپکو مکہ میں یہودیوں کے اس روزے کا علم نہیں تھا، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب  اہل کتاب بھی چاند کے حساب سے مہینے مقرر کرتے ہوں"
" زاد المعاد فی  هدی خير العباد " ( 2 / 66 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اس قصہ کے ظاہر پر کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے؛ کہ اس قصے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جس وقت مدینہ منورہ پہنچے تو یہودیوں کو عاشوراء کے روزے  کی حالت میں پایا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ ماہِ"ربیع الاول" میں پہنچے تھے،  تو اسکا جواب یہ ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو سب سے پہلے یہودیوں کے روزے کا علم مدینہ میں آنے کے بعد اس وقت ہوا جب آپ نے استفسار کیا تھا، نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدینہ میں آنے سے پہلے ہی ان کے روزے کا علم تھا، لہذا  اس قصہ میں کچھ محذوف  عبارت ہے، اور مکمل عبارت کا مفہوم ایسے ہو گا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائے، اور پھر جب عاشوراء کا دن آیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودیوں کو اس میں روزے کی حالت میں پایا"
" فتح الباری " ( 4 / 247 )

3- کیا یہودی اپنے روزے کیلئے قمری مہینوں پر اعتماد کرتے تھے یا شمسی مہینوں پر؟

چنانچہ اس سوال کے جواب میں اگر ہم یہ کہیں کہ وہ قمری مہینوں پر اعتماد کرتے تھے -جیسے  کہ پہلے بھی گزر چکا ہے-تو اس میں کوئی اشکال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ  دس محرم کا دن  ہر سال دس محرم کو ہی آئے گا، اور اگر یہ کہیں کہ وہ شمسی مہینوں پر اعتماد کرتے تھے ، تو یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے،  کہ یہ دن ہر سال دس محرم کو نہیں  آئے گا، بلکہ  تبدیل ہوتا رہے گا۔

ابن قیم رحمہ اللہ  نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودی شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی مدینہ آمد کے وقت ہی انہیں ربیع الاول میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شمسی  تاریخوں پر اعتماد کرتے تھے، اور اس اعتبار سے وہ دن اُس سال ربیع الاول میں  آیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام  کو دس محرم   کے دن ہی نجات دی تھی، لیکن  یہودیوں نے اس دن کی تعیین شمسی مہینوں سے شروع کی جسکی وجہ سے وہ لوگ اس دن کی تعیین میں غلطی کرنے لگے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر یہودیوں کا اعتماد شمسی مہینوں  پر ہو تو کوئی اشکال بھی باقی نہیں رہتا، کہ جس دن اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو نجات دی وہ دس محرم یعنی عاشوراء کا دن ہی تھا، لیکن یہودیوں نے اس دن کو شمسی مہینوں کے اعتبار سے یاد رکھا، اور اس طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ربیع الاول میں مدینہ منورہ آمد   پر یہودیوں  نے اپنے شمسی  اعتبار سے اس دن کا روزہ رکھا ہوا تھا، چونکہ شمسی مہینوں کے ایام قمری مہینوں کے اعتبار سے تبدیل ہوتے  رہتے ہیں، اور اہل کتاب  شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، جبکہ مسلمان  روزہ، حج اور دیگر فرض یا نفل عبادات کیلئے قمری مہینوں کا اعتبار کرتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (ہم موسی [علیہ السلام]کیساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں) اس طرح سے اس دن کی تعظیم  اور یومِ نجاتِ موسی کی تعیین کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے پہلا حکم صادر ہوا، جبکہ یہودیوں نے اس دن کی تعیین میں غلطی کی؛ کیونکہ  یہ دن شمسی  ایام کے اعتبار سے ہر سال بدلتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح عیسائیوں نے بھی  اپنے روزوں کی تعیین  کیلئے غلطی کی اور اسے سال  کے کسی خاص موسم کیساتھ  مختص کر دیا"
" زاد المعاد فی هدی خير العباد " ( 2 / 69 ، 70 )

لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس توجیہ کو احتمال  کیساتھ ذکر کیا، اور پھر اسکا رد بھی کیا، اور ابن قیم کی ترجیح کو مسترد کر دیا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ متاخرین کا کہنا ہے کہ: ہو سکتا ہے کہ یہودی شمسی مہینوں کے اعتبار سے روزے رکھتے تھے، چنانچہ  ربیع الاول کے ماہ میں نجاتِ موسی کا دن آنا ممکن ہے، تو اس طرح کوئی بھی اشکال باقی نہیں رہ جاتا، ابن قیم  نے "زاد المعاد" میں یہ اسی کو ثابت کیا ہے کہ: "اہل کتاب  شمسی اعتبار سے روزے رکھتے تھے"
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: ابن قیم رحمہ اللہ کی طرف سے تمام اشکال ختم ہو جانے کا دعوی تعجب خیز ہے؛ کیونکہ اس سے ایک اور اشکال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، اور شروع سے اب تک مسلمانوں میں یہ بات معروف ہے کہ یہ  روزہ صرف محرم میں آتا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں آتا۔

مجھے طبرانی میں  زید بن ثابت سے جید سند کے ساتھ ایک اثر ملا ہے اس میں ہے کہ: "عاشوراء کا دن وہ دن نہیں ہے جو عام لوگوں میں مشہور ہے، بلکہ اس دن میں کعبہ کا غلاف  چڑھایا جاتا،  اور حبشہ کے لوگ اس دن جنگی آلات  کے ذریعے کھیل کود کرتے تھے، اور یہ دن پورے سال میں کسی بھی دن  آیا کرتا تھا! اور لوگ فلاں یہودی کے پاس [اس دن کی بابت ] پوچھنے کیلئے آیا کرتے تھے، جب وہ مر گیا تو پھر لوگ زید بن ثابت کے پاس آ کر پوچھنے لگے"

تو اس اثر کے مطابق  تطبیق کی صورت یہ ہے کہ: اصل میں بات ایسے ہی ہے، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء  کے روزے کا حکم دیا تو لوگوں کو اصل شرعی حکم کی  طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے قمری مہینوں کا اعتبار، تو مسلمانوں نے اسی کو اپنایا۔
لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اہل کتاب اپنے روزوں کیلئے شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے تھے  یہ قابل تردید بات ہے؛ کیونکہ یہودی بھی اپنے روزوں کیلئے چاند ہی کا اعتبار کرتے ہیں، اور ہمارا یہودیوں کے بارے مشاہدہ بھی یہی ہے، اس لئے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ کچھ یہودی  شمسی  مہینوں کا اعتبار کرتے ہوں، لیکن اِن یہودیوں کا آج کوئی وجود نہیں ہے، جس طرح عزیر علیہ السلام کو -نعوذ باللہ-اللہ کا بیٹا کہنے والوں کا کوئی وجود نہیں ہے"
" فتح الباری " ( 7 / 276 ) ، اسی دیکھیں: ( 4 / 247 )

اور فتح الباری ہی میں ایک اور جگہ  طبرانی کی روایت پر  تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
"مجھے اسی مفہوم کی روایت  ابو  ريحان بيرونی کی کتاب " الآثار القديمة "  میں ملی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : "کچھ جاہل قسم کے یہودی  اپنے روزوں اور تہواروں کیلئے تاروں سے حساب  لگاتے، چنانچہ ان کے ہاں معتمد شمسی مہینے تھے، قمری مہینوں پر وہ اعتماد نہیں کرتے تھے"
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: اسی وجہ سے یہودیوں کو حساب کتاب کرنے والے  کی ضرورت پڑی تا کہ دنوں کی تعیین میں اسی کو معتمد سمجھا جائے"
" فتح الباری " ( 4 / 247 ، 248 )

حافظ ابن حجر کی جانب سے ذکر کردہ  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اثر  کے بارے میں حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسکی سند اور متن    پر  تنقید کی ہے، انکا کہنا ہے کہ:
"اس اثر میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ  عاشوراء ماہِ محرم میں نہیں ہے، بلکہ  اسکا حساب اہل کتاب کی طرح شمسی مہینوں کے اعتبار سے لگایا جائے گا، حالانکہ یہ بات شروع سے لیکر اب تک مسلمانوں کے طریقے سے متصادم ہے۔۔۔ [اس کی سند میں] ابن ابی زناد ہے جس کا انفرادی طور پر کسی روایت کو بیان کرنا معتمد نہیں ہوتا،  ویسے بھی اس نے پورے اثر کو زید بن ثابت کی طرف منسوب کیا ہے، اور اس اثر کا آخری حصہ تو کسی بھی صورت میں زید بن ثابت کا قول نہیں ہو سکتا ہے، احتمال ہے کہ سند میں ان سے نیچے کسی  کا یہ قول ہو۔ واللہ اعلم"
" لطائف المعارف " ( ص 53 )

4- کوئی پوچھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودیوں کی اس بات پر کیسے یقین کر لیا کہ عاشوراء کے دن ہی اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور انکے رفقاء کو نجات بخشی تھی؟ اور یہی سوال عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے متعلق احادیث  پر قدغن لگانے کیلئے  رافضی  بھی کر تے ہیں ، تا کہ وہ اسے اموی خلفاء کی بدعت  ثابت  کرنے میں کامیاب ہو جائیں!!"

اس اشکال کے جواب میں مازری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہودیوں کی اس بارے میں خبر مقبول نہیں ہے؛ اس لئے یقینی احتمال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف ان کی بات کی تائید میں وحی آ گئی ہو، یا آپ کو اس بارے میں کثرت کیساتھ  باتیں ملیں ہوں جن سے آپکو  انکی بات درست ہونے کا یقین ہو گیا"
مازری رحمہ اللہ کے قول کو نووی رحمہ اللہ نے " شرح مسلم " ( 8 / 11 ) میں نقل کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اگر  عاشوراء کا روزہ بنیادی طور پر اہل کتاب کی موافقت کیلئے نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان: (ہمارا تعلق موسی علیہ السلام کیساتھ تم سے زیادہ ہے)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے روزے کی تائید کیلئے ہوگا، اور اس میں یہود کیلئے یہ بھی وضاحت ہے کہ تم جس عمل کو موسی علیہ السلام کی خوشی میں  کرتے ہو، ہم بھی کرتے ہیں، تو اس طرح سے ہمارا موسی علیہ السلام کیساتھ تعلق تم سے زیادہ ہوگا"
" اقتضاء الصراط المستقيم " ( ص 174 )

5- یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جن معاملات میں  کوئی مخصوص حکم  نہیں دیا گیا تو ان امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب کی موافقت پسند کیا کرتے تھے، انہی امور میں عاشوراء کا روزہ بھی شامل ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پہلے بالوں کو  مانگ نکالے بغیر پیچھے کی طرف ڈال لیا کرتے تھے، جبکہ مشرکین مانگ نکالتے تھے، اور اہل کتاب  بالوں کو مانگ نکالے بغیر پیچھے کی طرف  ڈال لیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب کی  ان معاملات میں موافقت پسند کرتے تھے جن کے بارے میں مخصوص حکم  نہ دیا گیا ہو، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مانگ نکالنا شروع کر دی تھی" بخاری  ( 3728 )

امام بخاری رحمہ اللہ  کی فقاہت دیکھیں کہ  انہوں نے اس حدیث کو عاشوراء کے روزے سے متعلقہ ابو موسی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی مرویات کے بعد ذکر کیا ہے۔

ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کا روزہ ہو سکتا ہے کہ ان [مشرکین مکہ ] کی موافقت کرتے ہوئے رکھا ہو، جیسے کہ آپ نے ہجرت سے قبل حج  انہی کے انداز میں کیا تھا، کیونکہ یہ سب کام اچھے کام تھے۔
اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ : اللہ تعالی نے عاشوراء کا روزہ رکھنے کی اجازت دی، اور جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے  تو  یہودیوں کو روزے کی حالت میں پایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے اس روزے کا سبب پوچھا تو انہوں نے وہی جواب دیا جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے: یعنی  یہ عظیم دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور آپکی قوم کو فرعون اور اسکے لشکر سے نجات دی، تو موسی علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا، اس لئے ہم [یہودی ] بھی روزہ رکھتے ہیں، تو نبی صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہم موسی علیہ السلام کیساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں)؛ تو اس وقت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ میں عاشوراء کا روزہ رکھا، اور دوسروں کو اسکا حکم بھی دیا،یعنی واجب  قرار دے کر اس دن روزہ رکھنے کا تاکیدی حکم صادر فرمایا؛ حتی کے چھوٹے بچوں کو بھی صحابہ کرام روزہ رکھواتے تھے، اور رمضان کے روزے فرض ہونے اور عاشوراء کے روزے کی منسوخی تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور صحابہ کرام نے  اس دن کا روزہ پابندی سے رکھا، اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تم پر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا) اور پھر اس دن کا روزہ رکھنے کو اختیاری عمل قرار دے دیا،  اور اپنے  لئے پھر بھی یہی فرمایا: "اور میں [آج عاشوراء کے]دن روزہ سے ہوں" جیسے کہ اس بات کا ذکر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کا روزہ یہودیوں کی اقتداء کرتے ہوئے نہیں رکھا؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ آنے سے پہلے بھی اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور آپکو  یہودیوں کے بارے میں علم بھی بعد میں ہوا، لیکن  یہودیوں کو دیکھ کر آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا تاکیدی حکم صادر فرمایا، تا کہ یہودیوں اور مسلمانوں میں قربت پیدا ہو، اور آہستہ آہستہ  یہودی اسلام کے قریب آجائیں، یہی حکمت  ابتداء میں یہودیوں کے قبلے کی طرف رخ کر کے  نماز پڑھنے میں بھی پائی جاتی ہے، اور یہ وہی عہد نبوی ہے جس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب کی موافقت ایسے کاموں میں پسند کیا کرتے تھے، جن کے بارے میں ابھی ممانعت نازل نہیں ہوئی"
" المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم " ( 3 / 191 ، 192 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"بہر صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کا روزہ یہودیوں کی اقتداء میں نہیں رکھا؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے پہلے بھی عاشوراء  کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور یہ وہی عہد نبوی ہے جس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب کی اُن معاملات میں موافقت پسند کیا کرتے تھے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع نہیں کیا گیا"
" فتح الباری " ( 4 / 248 )

6-  اہل علم کی گفتگو میں پہلے یہ گزر چکا ہے کہ : عاشوراء کا دن قریش کے ہاں بھی معروف تھا، اور مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس سے واقف تھے، اور سب کے سب اس دن کی تعظیم کیا کرتے تھے، بلکہ اس دن روزہ بھی رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے ساتھ اس دن کا روزہ رکھا، اور  وہ لوگ اس دن میں کعبہ کا غلاف بھی تبدیل کرتے تھے، ان تمام باتوں کے سامنے "عاشوراء" کے متعلق یہ کہنا کہ یہ اموی بدعت ہے!!  بالکل  خاکستر ہو جاتا ہے، اور صحیح احادیث  میں اس دن کا روزہ ثابت بھی ہو چکا ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "جاہلیت میں قریش بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اس دن کا روزہ رکھا، چنانچہ جب آپ مدینہ میں  ہجرت  کر کے تشریف لائے تو اس دن کا روزہ  رکھنے کیلئے حکم صادر فرمایا، اور جس وقت رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جو چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے، اور جو چاہے  نہ رکھے)"
بخاری:  ( 1794 ) مسلم ( 1125 ) لفظ مسلم کے ہیں۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ: "دور جاہلیت کے لوگ عاشوراء  کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کیساتھ مسلمانوں نے بھی اس دن کا روزہ  رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رکھا، چنانچہ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (عاشوراء کا دن اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے، چنانچہ جو چاہے اس دن روزہ رکھے، اور جو چاہے نہ رکھے)"
مسلم ( 1126 )

ہم نے  یہاں پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث رافضی شیعہ  ، اور انہی کے پیچھے لگ کر مکھی پر مکھی مارنے والوں کی تردید کیلئے ذکر کی ہے، اُنکا کہنا ہے کہ  مکہ میں عاشوراء کا روزہ  رکھنے کا ذکر صرف عائشہ رضی اللہ عنہا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے کرتی ہیں۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی روایت مروی ہے ، اسے عبید اللہ بن عمر اور ایوب نے نافع سے  انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اور عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا"
" التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد " ( 7 / 207 )

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام احادیث کا  خلاصہ یہ ہے کہ عاشوراء   کے دن دورِ جاہلیت کے قریش  اور یہود سمیت دیگر لوگ اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور اسلام نے اسے فرض قرار دیا، پھر بعد میں اس دن کے روزے کی فرضیت ختم کر دی گئی"
" شرح مسلم " ( 8 / 9 ، 10 )

ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ : "قریش دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے" اس بات کی دلیل ہے کہ  عاشوراء کا روزہ قریش کے ہاں بھی  شرعی عمل تھا، وہ اسکی قدر بھی کرتے تھے، اس لئے احتمال ہے کہ وہ اس دن کا روزہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما الصلاۃ و السلام   کی شریعت  پر چلتے  ہوئے رکھتے تھے، کیونکہ تمام قریشی  انہی دونوں انبیائے کرام کی طرف نسبت رکھتے تھے، اور اسکے علاوہ خصوصاً حج کے بہت سے مسائل میں  انہی دونوں انبیائے کرام کی اقتدا کرتے تھے"
" المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم " ( 3 / 190 ، 191 )

اور قریشیوں کے  اس دن روزہ رکھنے کے اسباب مفصل طور پر جاننے کیلئے  آپ  دیکھیں: المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام (11/339، 340)

7- سب سے آخر میں  ہم   یہ کہیں گے کہ ، عاشوراء کی فضیلت میں  مذکورہ بالا  تمام فضائل صحیح احادیث سے ثابت ہیں، اور اس دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اور یہ دن محرم کی دس تاریخ کو ہی آتا ہے، ان تمام باتوں  کے صرف اہل سنت ہی قائل نہیں ہیں بلکہ یہ تمام باتیں شیعہ حضرات کی کتب میں بھی آ چکی ہیں! تو اب شیعہ حضرات  یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں امور اسرائیلیات  ہیں، یا یہودیوں سے لئے گئے ہیں؟!  یا یہ اموی بدعت ہے!؟

أ‌- ابو عبد اللہ علیہ السلام  اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ علی علیہما السلام ! نے فرمایا:  "عاشوراء کا روزہ رکھو، اسی  طرح نو  اور دس کا  بھی ؛ کیونکہ اس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں"
اسے طوسی نے " تهذيب الأحكام " ( 4 / 299 )  میں ، اور " الاستبصار " ( 2 / 134 ) میں، اسی طرح فيض كاشانی نے " الوافی " ( 7 / 13 ) میں ، اور حر عاملی نے " وسائل الشیعہ" ( 7 / 337 ) میں ، اور بروجردی  نے  " جامع أحاديث الشیعہ" ( 9 / 474 ، 475 ) میں نقل کیا ہے۔

ب‌- ابو الحسن علیہ السلام  سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا"
یہ روایت  " تهذيب الأحكام " ( 4 / 29 ) ، " الاستبصار " ( 2 / 134 ) ، " الوافی " ( 7 / 13  ) ، " وسائل الشیعہ" ( 7 / 337 ) اور اسی طرح " جامع أحاديث الشیعہ " ( 9 / 475 ) میں موجود ہے۔

ت‌- جعفر  الصادق سے روایت کی گئی ہے  وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: "عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے"
یہ روایت   "تهذيب الأحكام " ( 4 / 300 ) ، " الاستبصار " ( 2 / 134 ) ، " جامع أحاديث الشیعہ " ( 9 / 475 ) ، " الحدائق الناضرة " ( 13 / 371 ) ، کاشانی کی " الوافی" ( 7 / 13 ) اور حر عاملی کی " وسائل الشیعہ " ( 7 / 337 ) میں موجود ہے۔

ث‌- علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: "عاشوراء کا روزہ رکھو، اور دس کے ساتھ نو کا احتیاطا روزہ رکھو؛ کیونکہ اس سے گزشتہ ایک سال  کے گناہ معاف ہوتے ہیں، اور اگر کسی کو اس کے بارے میں پہلے علم نہیں  تھا  تو باقی دن روزہ مکمل کرے"
اس روایت کو شیعہ محدث حسین نوری طبرسی نے  " مستدرك الوسائل " ( 1 / 594 ) اور بروجردی" جامع أحاديث الشیعہ" ( 9 / 475 ) میں روایت کیا ہے۔

ج‌- ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "جب تم محرم کا چاند دیکھ لو، تو دن گننا شروع کر دو، چنانچہ جب نو تاریخ ہو تو اس دن کا روزہ رکھو، میں نے [یعنی راوی نے]کہا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح روزہ رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! اسی طرح روزہ رکھتے تھے"
اس روایت کو  رضی الدین ابو القاسم علی بن موسی بن جعفر طاووس شیعہ  نے اپنی کتاب:  " إقبال الأعمال " ( ص 554 ) میں ، اور حر عاملی نے " وسائل الشیعہ " ( 7 / 347  ) میں ، نوری طبرسی نے  " مستدرك الوسائل " ( 1 / 594 )  میں اور  " جامع أحاديث الشیعہ " ( 9 / 475 ) میں روایت کیا ہے۔

ہمیں تخریج سمیت یہ تمام روایات  کتاب: " من قتل الحسين رضی الله عنہ؟ " از:  عبد الله بن عبد العزيز سے ملی ہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب