الحمد للہ.
اول:
شريعت اسلاميہ ميں كسى مسلمان كا اہل كتاب ـ يہودى اور عيسائى ـ كى عورتوں سے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
} كل پاكيزہ چيزيں آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا ذبيحہ تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا ذبيحہ ان كے ليے حلال ہے، اور پاك دامن مسلمان عورتيں اور جو لوگ تم سے پہلے كتاب ديے گئے ہيں ان كى پاك دامن عورتيں حلال ہيں جب كہ تم ان كے مہر ادا كرو، اس طرح كہ تم ان سے باقاعدہ نكاح كرو يہ نہيں كہ علانيہ زنا كرو يا پوشيدہ بدكارى كرو، منكرين ايمان كے اعمال ضائع اور اكارت ہيں اور آخرت ميں وہ ہارنے والوں ميں سے ہيں {المآئدۃ ( 5 ).
اور اہل كتاب كى اس عورت سے نكاح كرنا مباح ہے جو عفت و عصمت والى ہو بدكار نہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2527 ) كا مطالعہ كريں.
دوم:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد كو حكم ديا ہے كہ وہ ايسى عورت كو بطور بيوى اختيار كرے جو دين والى اور اخلاق كريمہ كى مالك ہو.
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" چنانچہ تم دين والى اختيار كرو تمہارا ہاتھ خاك ميں ملے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
اسى ليے اكثر علماء كرام نے اہل كتاب كى عورت سے مسلمان شخص كا شادى كرنا مكروہ قرار ديا ہے، اور اس كے كئى ايك اسباب ہيں:
1 ـ ايسى عورت سے شادى كرنے كا خدشہ جو عفت و عصمت كى مالك نہيں.
شقيق بن سلمہ بيان كرتے ہيں كہ حذيفہ نے ايك يہودى عورت سے شادى كى تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں خط لكھا: كہ اسے چھوڑ دو، تو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں جواب ديا كيا تم يہ خيال كرتے ہو كہ يہ حرام ہے تو ميں اسے چھوڑ ديتا ہوں ؟
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: نہيں ميں اسے حرام خيال نہيں كرتا، ليكن مجھے خدشہ ہے كہ ان ميں بدكار عورتوں كے ساتھ شادياں نہ كرنے لگو "
اسے ابن جرير طبرى نے تفسير طبرى ( 4 / 366 ) ميں روايت كيا اور حافظ ابن كثير رحمہ اللہ نے تفسير ابن ابن كثير ( 1 / 583 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
2 ـ اس چيز كا خدشہ كہ كہيں مسلمان مرد مسلمان عورتوں كو چھوڑ كر اہل كتاب كى عورتوں سے ہى شادياں نہ كرنے لگ جائيں.
عامر بن عبد اللہ نسطاس رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ طلحہ بن عبيد اللہ نے يہوديوں كے ايك سردار كى بيٹى سے شادى كى راوى كہتے ہيں كہ تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں روكا ليكن انہوں نے اسے طلاق نہيں دى "
اسے مصنف عبد الرزاق ( 6 / 79 ) ميں روايت كيا گيا ہے.
ابن جرير طبرى رحمہ اللہ حذيفہ اور طلحہ رضى اللہ كے متعلق عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے قول پر تعليقاً كہتے ہيں:
" طلحہ اور حذيفہ كا يہودي اور نصرانى عورت سے نكاح كرنا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس ليے ناپسند كيا كہ كہيں لوگ اس ميں ان كى اقتداء اور پيروى نہ كرنے لگيں، اور مسلمان عورتوں كو چھوڑ ديں اس ليے انہوں نے انہيں چھوڑنے كا حكم ديا " انتہى
ديكھيں: تفسير الطبرى ( 4 / 366 ).
3 ـ اس طرح كى شادى كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، مثلا اولاد اور ان كے عقائد كے متعلق پيش آمد خطرات اور جھگڑے كا پيدا ہونا.
اہل كتاب كى عورتوں سے نكاح ميں جو خرابياں پيدا ہوتى ہيں ان كو ہم سوال نمبر ( 20227 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں آپ ان كى اہميت كى وجہ سے اس كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
علماء رحمہم اللہ نے ايك قاعدہ اور اصول بيان كيا ہے كہ: جب مسلمان شخص كو ضرورت ہو تو اس كے ليے مكروہ مباح ہو جاتا ہے "
اس قاعدہ اور اصول كى تفصيل اور شرح اور مثاليں ديكھنے كے ليے آپ شيخ ابن عثيمين كى كتاب " شرح منظومۃ اصول الفقہ و قواعدہ " صفحہ نمبر ( 62 ) كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر اسلامك سينٹر كے چئرمين نے جو كچھ كيا ہے وہ اصلا مكروہ ہے، ليكن ہم بعينہ اس شخص پر حكم نہيں لگا سكتے كہ اس نے مكروہ كام كيا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے ليے ايسا كرنے كے اسباب ہوں، جو اس كراہت كے حكم كو ختم كرنے كا باعث ہوں.
فرض كريں كہ اس نے كوئى مكروہ عمل كيا ہے تو بھى اس نے كوئى حرام كام تو نہيں كيا، بلكہ ايك ايسا عمل كيا ہے جس كے جواز پر قرآن اور سنت دلالت كرتے ہيں.
تو اس طرح اس كا عادل ہونا ختم نہيں ہو جائيگا، اور نہ ہى اس سے بائيكاٹ كرنا اور اسے اس كے منصب سے معزول كرنے كا باعث بنےگا، كيونكہ اس نے كسى حرام فعل كا ارتكاب تو نہيں كيا، اور نہ ہى كوئى ايسا عمل كيا ہے جو اس كے عادل اور امين ہونے ميں جرح كا باعث بنے، لہذا آپ اس كے ساتھ نرم رويہ اختيار كريں، اور سب مل كر ايك ہو جائيں، اور خاص كر اپنے اس ملك ميں جہاں آپ رہ رہے ہيں، كيونكہ وہاں آپ كو اجتماعيت اور محبت و الفت كى زيادہ ضرورت ہے.
واللہ اعلم.