ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

كيا نماز مغرب پہلے ادا كى جائے يا كھانا پہلے كھايا جائے ؟

سوال

مسلمان شخص كيسے افطارى كرے، كيونكہ بہت سارے لوگ كھانے ميں مشغول ہوتے ہيں اور نماز كا وقت گزر جاتا ہے اور جب آپ ان سے دريافت كريں تو وہ كہتے ہيں كہ كھانے كى موجودگى ميں نماز نہيں ہوتى.
كيا اس قول سے استدلال جائز ہے، كيونكہ مغرب كا وقت كم ہوتا ہے، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
كيا كھجور كے ساتھ افطارى كر كے نماز مغرب كے ليے چلا جاؤں اور بعد ميں آ كر كھانا كھاؤں، يا كہ پہلے كھانا مكمل كروں اور بعد ميں نماز ادا كر لوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سنت يہى ہے كہ انسان افطارى جلدى كرے، جب سورج غروب ہو جائے تو وہ افطارى كر لے كيونكہ حديث ميں وارد ہے كہ:

" جب تك لوگ افطارى ميں جلدى كرتے رہيں گے ان ميں خير و بھلائى رہے گى "

اور ايك حديث ميں ہے:

" اللہ كے ہاں سب سے زيادہ محبوب بندے وہ ہے ہيں افطارى ميں جلدى كرتے ہيں "

روزے دار كے حق ميں زيادہ بہتر يہى ہے كہ وہ كھجور كے ساتھ افطارى كر كے نماز مغرب ادا كرے اور كھانا بعد ميں كھائے تا كہ افطارى جلد كرنے اور نماز مغرب اول وقت ميں ادا كرنے كى سنت جمع كر كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كر سكے.

رہى يہ حديث كہ:

" كھانے كى موجودگى ميں نماز نہيں ہوتى، اور دو خبيث اشياء ( پيشاب اور پاخانہ ) كو روك كر ركھنے كى حالت ميں نماز نہيں ہوتى "

اور حديث:

" جب رات كا كھانا حاضر ہو جائے تو پہلے رات كا كھانا كھاؤ "

اور اس معنى ميں جو وارد ہے اس سے مراد يہ ہے كہ:

جس كے سامنے كھانا پيش كر ديا جائے يا وہ كھانے ميں حاضر ہو جائے تو وہ نماز سے قبل كھانا كھا لے تا كہ وہ نماز كے ليے آئے تو اس كا دل كھانے كى طرف نہ ہو اور وہ كھانے سے فارغ ہو چكا ہو، اور پورے خشوع كے ساتھ نماز كرے.

ليكن اسے يہ حق حاصل نہيں كہ نماز سے قبل كھانا طلب كرے يا پھر كھانے ميں حاضر ہو جائے، كيونكہ ايسا كرنے سے نماز باجماعت رہ جائيگى، اور اول وقت ميں نماز ادا نہيں كر سكے گا.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور انكى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

ماخذ: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء المجموعۃ الثانيۃ ( 9 / 32 )