الحمد للہ.
شادى كرنے والے شخص كو چاہيے كہ وہ ديندار اور اخلاق والى عورت كو اختيار كرے؛ جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت كے ساتھ چار اشياء كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے: اس كے مال كى بنا پر، اور اس كے حسب و نسب كى وجہ سے، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى بنا پر، اور اس كے دين كى وجہ سے، تمہارے ہاتھ خاك آلودہ ہوں تم دين والى اختيار كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
اور يہ بھى چاہيے كہ آدمى اپنے والدين سے مشورہ كرے اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ والدين كا عظيم حق ہے، اس ليے اگر وہ كسى معين عورت ميں رغبت ركھتا ہے اور والدين اسے چھوڑنے كا كہتے ہيں تو اسے والدين كى اطاعت كرتے ہوئے اس عورت كو چھوڑ دينا چاہيے، جب اسے يہ خدشہ نہ ہو كہ وہ اس معين عورت سے شادى نہ كرے تو حرام ميں پڑ جائيگا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 128362 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر وہ اسے چھوڑنے كا حكم نہيں ديتے، ليكن اسے علم ہو جائے كہ وہ اس عورت ميں رغبت نہيں ركھتے، تو اگر وہ ان كى مراد اور رغبت كو پورا كر سكتا ہے، اور اس عورت كو چھوڑ سكتا ہے تو اسے ايسا كرنا چاہيے.
اور اگر اس كا دل اس عورت كے ساتھ معلق ہو چكا ہو، اور اسے چھوڑنا مشكل ہو تو پھر كوئى حرج نہيں، ليكن اسے اپنے والدين كو راضى كرنے اور مطئمن كرنے كى كوشش كرنى چاہيے چاہے وہ كسى بھى طرح كرے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 30796 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں آپ كى حالت جيسى حالت ميں پڑنے والے شخص كے ليے نصيحت كى گئى ہے.
واللہ اعلم .