الحمد للہ.
عورت كے ليے اپنے چھوٹى عمر كے شخص كے ساتھ شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں مرد كا اپنے والدين سے اجازت لينا لازم نہيں، ليكن والدين كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى ميں شامل ہوتا ہے كہ وہ والدين سے نكاح كے بارہ ميں اجازت حاصل كرے.
اور اگر منگنى كرنے والا شخص اپنى والدہ كى طبيعت كو جانتا ہے كہ اگر اسے شادى كا علم ہو جائے تو وہ راضى ہو جائيگى، اور يہ چيز قطع رحمى پر نہيں ابھارےگى، يا پھر اس كے ليے تنگى كا باعث نہيں بنےگى، يا اس كے ليے بيمارى وغيرہ لاحق ہونے كا خطرہ نہ بنےگى تو پھر اس نے جو كيا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور آپ كے ليے اگر اس شخص كى نيك ہونا اور صالح ہونا واضح ہوا ہے، اور اس كے بارہ ميں باز پرس اور تحقيق كرنے كے بعد آپ كے ظن پر غالب يہ ہے كہ اس كے گھر والے شادى كے بعد اس سے قطع تعلقى نہيں كرينگے، تو آپ كو يہ رشتہ قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر آپ ديكھيں كہ شادى كے بعد قطع رحمى اور مخالفت ہوگى، تو ہم اس صورت ميں يہ شادى كرنے كى نصيحت نہيں كرتے، كيونكہ اس كا آپ اور آپ كى اولاد پر برا اثر پڑيگا، اور اس ليے بھى كہ اس ميں خاوند كا اپنى والدہ كے ساتھ قطع تعلقى كرنےميں معاونت ہوتى ہے.
يہ تو معلوم ہے كہ جب والدہ اپنے بيٹے كو كسى معين عورت كے ساتھ شادى نہ كرنے كا حكم دے تو اس بيٹے پر والدہ كى اطاعت كرنا لازم ہے، جب تك اسے يہ خدشہ نہ ہو كہ اگر وہ اس عورت سے شادى نہيں كرتا تو حرام كام ميں پڑ جائيگا، اس ليے كہ والدين كى اطاعت كرنا فرض ہے.
اور اس معين عورت كے ساتھ شادى كرنا واجب نہيں؛ بلكہ اور بہت عورتيں ہيں، اس ليے ابن صلاح اور امام نووى اور ابن ہلال رحمہم اللہ نے صراحت كے ساتھ بيان كيا ہے " جيسا كہ علامہ محمد مولود موريتانى نے نظم البرور ميں ذكر كيا ہے " كہ جب والد اپنے بيٹے كو كسى معين عورت سے شادى كرنے سے منع كر دے تو والد كى اطاعت واجب ہے.
ليكن اگر اسے خدشہ ہو كہ وہ اس عورت كے ساتھ شادى نہ ہونے كى صورت ميں اس سے حرام كام ميں پڑ جائيگا، تو پھر يہ خرابى دور كرنا والدين كى اطاعت پر مقدم ہوگى.
الشيخ المرابط اباہ ولد محمد امين شنقيطى نظم الفردوس ميں كہتے ہيں:
اگر والد اپنے بيٹے كو كسى عورت سے نكاح كرنے سے منع كر دے تو بيٹے پر نكاح منع ہے.
جب تك اسے اس عورت كے ساتھ معصيت ميں پڑنے كا خدشہ نہ ہو.
جيسا كہ انہوں نے اسے ھلالى سيد عبد الالہ العلوى كى طرف منسوب كيا ہے.
اور جب وہ اس پر كوئى حيلہ كرے اور والدہ كو خبر نہ دے اور اسے علم ہو كہ شادى كے بعد والدہ راضى ہو جائيگى تو پھر كوئى حرج نہيں.
آپ كو اس سلسلہ ميں استخارہ كے ساتھ ساتھ اس شخص كو جاننے والے كے ساتھ مشورہ بھى كرنا چاہيے.
اس ليے كہ اس شخص كے گھر والوں كے علم كے بغير شادى ہونے كا يہ معنى نہيں كہ يہ شادى خفيہ ہو، اگرچہ آپ كے گھر والوں كو اس كا علم بھى ہو، بلكہ واجب اور ضرورى ہے كہ اس پر گواہ ہوں، اور جہاں آپ رہتے ہيں وہاں اس شادى كا اعلان بھى ہو، تا كہ اس جگہ اور محلہ والوں كو شادى كا علم ہو جائے يا پھر جنہيں آپ جانتے ہيں انہيں شادى كا علم ہو، اور آپ كے تعلقات كى حقيقت كا علم ہو.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 105728 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .