الحمد للہ.
اول:
جب معاملہ عدالت ميں اٹھايا جائے اور شرعى قاضى كا فيصلہ صادر ہو جائے كہ طلاق ہو چكى ہے يا نہيں ہوئى تو پھر كسى بھى فتوى كا كوئى اعتبار نہيں رہتا جو اس فيصلہ كے مخالف ہو چاہے وہ كوئى بھى فتوى ہو، كيونكہ اگر اختلاف ہو تو قاضى كا فيصلہ اس كو ختم كر ديتا ہے.
اس بنا پر آپ كى بيوى آپ سے عليحدہ ہو چكى ہے اور اسے طلاق بائن ہو چكى ہے، اور وہ اس وقت تك آپ كے ليے حلال نہيں ہو سكتى جب تك وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے اور يہ نكاح حلالہ نہ ہو، اور پھر وہ خود ہى اسے طلاق دے يا پھر فوت ہو جائے.
دوم:
آپ كے ليے اپنى بيوى كو حلال كرنے كے ليے صورى عقد نكاح يعنى كاغذوں پر نكاح كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس سے آپ كى بيوى آپ كے ليے حلال ہوگى، اور حلالہ كرنے والا اور كرانے والا دونوں ہى ملعون ہيں.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كرانے والے پر لعنت فرمائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور بالجملہ يہ كہ عام اہل علم كے قول كے مطابق نكاح حلالہ باطل ہے؛ جن ميں حسن، النخعى اور قتادہ اور مالك اور ليث اور ثورى اور ابن مبارك اور امام شافعى شامل ہيں.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 137 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" نكاح حلالہ فاسد ہے، اس سے وہى احكام ثابت ہونگے جو باقى فاسد عقود سے ثابت ہوتے ہيں، اور اس سے عفت حاصل نہيں ہوگى اور نہ ہى اس سے پہلے خاوند كے ليے مباح ہو گى جس طرح باقى سارے فاسد عقود ميں ثابت نہيں ہوتے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 140 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 14038 ) اور ( 109245 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
اللہ كى قسم ہم تو آپ دونوں كى حالت پر تعجب كر رہے ہيں، بيوى اپنا معاملہ عدالت ميں لےجانے پر مصر ہے اور طلاق كا مطالبہ كرتى ہے، اور جب عدالت سے طلاق كا فيصلہ ہو جاتا ہے تو الٹے پاؤں پھر جاتى ہے، اور آپ كى طرف واپس آنے اور بيوى بننے كى رغبت ركھتى ہے.
اور اب ديكھيں تم دونوں حرام زناكارى كا ارتكاب كيے جا رہے ہيں، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ ايك عالم نے طلاق واقع نہ ہونے كا فتوى ديا ہے، اور يہ تو سب سے برى چيز ہے جس ميں انسان مبتلا ہوتا ہے، وہ نعمت كى ناشكرى كرے، اور حلال ميں ناراض ہو، اور پھر اس پر راضى ہو اور حرام ميں اس كو حاصل كرنے كى كوشش كرے، يقينا يہ تو شيطان كے مكر و فريب اور اس كى تزيين سے ہے كہ وہ اسے ابن آدم كے ليے مزين كر ديتا ہے.
اس ليے ہمارى نصيحت يہ ہے كہ آپ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اور اس كے غضب اور ناراضگى و انتقام سے بچ جائيں اور يہ جان ليں كہ عدالت كا فيصلہ اسى صورت ميں ٹوٹ سكتا اور ختم ہو سكتا ہے جب قاضى كے ليے غطلى واضح ہو جائے اور وہ اپنے فيصلہ سے رجوع كر لے.
اس ليے آپ كے ليے اس كے علاوہ كوئى اور راہ نہيں كہ آپ عدالت سے دوبارہ رجوع كريں، اور اگر وہ اسى فيصلہ پر اصرار كرے تو آپ كے ليے وہ اس وقت تك حلال نہيں ہو سكتى جب تك كسى دوسرے سے نكاح رغبت نہ كر لے نكاح حلالہ نہيں پھر اگر اللہ تعالى مقدر كر دے كہ وہ فوت ہو جائے يا اسے طلاق دے دے.
واللہ اعلم .