منگل 21 شوال 1445 - 30 اپریل 2024
اردو

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کی تعداد

139531

تاریخ اشاعت : 19-04-2024

مشاہدات : 174

سوال

کیا یہ بات صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے 99 نام ہیں، مثلاً: احمد، صدیق، امین وغیرہ۔ اگر یہ بات ایسے نہیں ہے تو پھر کس نے یہ بات مشہور کی ہے اور اسے لوگوں میں عام کیا ہے؟ مجھے امید ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں گے، جزاکم اللہ خیرا

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے کتاب و سنت میں صراحت کے ساتھ کچھ نام آئے ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام : محمد، اور احمد مذکور ہے، اسی طرح صحیح احادیث میں آپ کے دیگر متعدد نام بھی ثابت شدہ ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میرے کئی نام ہیں: میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی [مٹانے والا] بھی ہوں کہ اللہ تعالی میری وجہ سے کفر کو مٹا دے گا۔ میں حاشر [جمع اور اکٹھا کرنے والا] ہوں کہ لوگوں کو میرے بعد اٹھایا جائے گا۔ میں عاقب [آخر میں آنے والا] بھی ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4896) اور مسلم : (2354) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اپنے نام بتلایا کرتے تھے ، آپ نے فرمایا: میں محمد، احمد، مُقَفِّی، حاشر، نبی التوبہ اور نبی الرحمہ ہوں۔) مسلم: (2355)

اور کچھ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کی حد بندی کی طرف بھی اشارہ موجود ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (3532) میں محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میرے پانچ نام ہیں: میں محمد اور احمد ہوں، میں ماحی ہوں میرے ذریعے اللہ تعالی کفر مٹا دے گا، اور میں حاشر ہوں کہ لوگوں کو میرے بعد اٹھایا جائے گا، اور میں عاقب ہوں۔)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ کا لفظ بول کر مراد یہ لیا ہے کہ یہ نام میرے ہیں، مجھ سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں ہے، یا اگر نام ہے تو اس کی اتنی قدر نہیں ہے جتنی میرے نام کی ہے، یا سابقہ اقوام میں یہ نام مشہور نہیں تھے۔ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صرف یہی پانچ نام ہیں۔

ایک موقف یہ بھی ہے کہ حدیث میں مذکور پانچ نام سابقہ کتابوں اور امتوں میں موجود ناموں سے زیادہ مشہور ہیں۔" ختم شد

دوم:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کو جمع کرنے کے لیے علمائے کرام نے متعدد تصانیف بھی لکھی ہیں جن کی تعداد 14 سے زائد ہے، اسی طرح سیرت نگاروں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کے لیے خصوصی ابواب قائم کیے ہیں، جیسے کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: " الشفا بتعريف حقوق المصطفى " (1/228) میں کیا ہے، انہوں نے عنوان قائم کیا کہ: فصل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں اور ان میں موجود آپ کی فضیلت کے بیان میں۔

اسی طرح علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں مستقل باب قائم کیا ہے۔

علامہ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کے بارے میں متعدد تصنیفات لکھی گئیں ہیں، چنانچہ کشف الظنون اور ذیل کشف الظنون میں 14 کتابوں کے نام ذکر کیے گئے ہیں، جیسے کہ عبد اللہ بن محمد حبشی یمانی کی کتاب: " معجم الموضوعات المطروقة في التأليف الإسلامي " کے صفحہ: 435 – 436 میں مذکور ہے، یہ کتابیں علامہ ابن دحیہ، قرطبی، رصاع، سخاوی، سیوطی اور ابن فارس سمیت دیگر اہل علم کی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کے متعلق تفصیلات کتب سیرت، نبوی خصائص، اور شروحات احادیث میں مل سکتی ہیں، جیسے کہ عارضہ الاحوذی(10/281) میں ہے، ان کتابوں میں سیوطی کی کتاب: { الرياض الأنيقة في شرح أسماء خير الخليقة} طبع بھی ہو چکی ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: " معجم المناهي اللفظية " (361)

سوم:
متعدد ناموں کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس اختلاف کی وجہ سے ان ناموں کی تعداد میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کی تعداد میں اختلاف کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ اہل علم نے قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جتنے بھی اوصاف دیکھے ان سب کو نام بھی شمار کر لیا، مثلاً: شاہد، مبشر، نذیر، داعی اور سراج منیر ، یہ تمام نام ایک ہی آیات میں مذکور ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا . وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا
 ترجمہ: اے نبی! یقیناً ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری سنانے والا، ڈرانے والا، اللہ کے حکم سے اسی کی طرف دعوت دینے والا ، اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔[الاحزاب: 45 - 46]

جبکہ دیگر اہل علم نے یہ موقف اپنایا کہ یہ اوصاف اور خوبیاں ہیں، نام نہیں ہیں۔

جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مذکور چیزیں اوصاف ہیں، تو انہیں نام قرار دینا مجازی طور پر ہے۔" ختم شد
" تهذيب الأسماء واللغات " (1/49)

اسی طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان میں سے اکثر صفات ہیں۔" ختم شد
" تنوير الحوالك " (1/727)

علامہ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ لوگوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ناموں کی تعداد بھی اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کے برابر بنائی ہوئی ہے، بلکہ تقریباً 70 کے قریب ایسے نام ہیں جو اللہ تعالی کے ہیں۔ صاحب کتاب : "دلائل الخیرات" جزولی نے ان ناموں کو 200 تک پہنچایا ہے۔

جبکہ ابن دحیہ نے اپنی کتاب: " المستوفى في أسماء المصطفى"میں ان ناموں کی تعداد کو 300 تک پہنچا دیا ہے۔

اور کچھ صوفیوں نے 1000 تک یہ تعداد پہنچا دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالی کے ہزار نام ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بھی 1000 نام ہیں۔" ختم شد
" معجم المناهي اللفظية " (ص/361)

اتنی بڑی تعداد کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اتنی بڑی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہیں، نیز یہ بھی درست نہیں ہے کہ کتاب و سنت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جتنے اوصاف آئے ہیں انہیں نام قرار دے دیا جائے، پھر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام بھی توقیفی ہیں، یعنی صرف انہی ناموں کو نام قرار دیا جائے گا جو کتاب و سنت میں بطور نام آئے ہیں، قرآن کریم اور صحیح احادیث میں ثابت شدہ ناموں میں اضافہ جائز نہیں ہے۔

علامہ بکر ابو زید رحمہ اللہ اس حوالے سے کہتے ہیں:
"ثابت شدہ شرعی نصوص میں آپ ﷺ کے نام اور اوصاف دونوں مذکور ہیں ناموں کی تعداد تھوڑی ہے جبکہ اوصاف کی تعداد زیادہ ہے، ان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر ان کا اطلاق نہیں کیا جائے گا تا کہ ہمہ قسم کے افراط اور غلو سے انسان بچ سکے، یہ ممانعت اس وقت مزید سخت ہو جائے گی جب مزعومہ نام یا وصف بے دلیل ہونے کے ساتھ غلو اور اِترا سے بھر پور ہو، ہم اپنی اس معجم میں اسی قسم کے ناموں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، تا کہ اللہ اور اس کے رسول سے غیر ثابت شدہ ناموں پر متنبہ کر سکیں، ان ناموں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور یہ زیادہ تر طریقت کی کتابوں ، اور خود ساختہ اذکار و اوراد میں ملتے ہیں، جیسے کہ جزولی کی کتاب دلائل الخیرات ہے، جیسے کہ : احید، وحید، منح، مدعو، غوث، غیاث، مقیل العثرات، صفوح عن الزلات، خازن علم اللہ، بحر انوارک، معدن اسرارک، مؤتی الرحمہ، نور الانوار، السبب فی کل موجود، حاء الرحمہ، میم الملک، دال الدوام، قطب الجلالہ، السر الجامع، الحجاب الاعظم، آیت اللہ۔

ان ناموں میں سے 99 نام قرآن کریم کے آخری صفحات پر طبع کیے جاتے تھے، اور پہلے صفحے پر اللہ تعالی کے 99 نام طبع کیے جاتے تھے، ہندوستانی نسخوں میں ایسے کیا جاتا ہے۔ ہمارے شیخ مکرم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کو یہ موقع ملا کہ انہوں نے قرآنی نسخوں میں ایسا کرنے سے خبردار کیا کہ قرآنی نسخوں میں صرف قرآن ہی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش پر جزائے خیر سے نوازے۔ یہ نام مسجد نبوی شریف کی قبلے کی سمت والی دیوار پر اب بھی لکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی کو توفیق دے گا کہ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد کو کسی بھی ایسی چیز سے پاک کر دے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی سے اس کے لیے مدد مانگتے ہیں۔

اس کے بعد مجھے بہت اچھی گفتگو ملی جو الحمدللہ بالکل وہی تھی جو میرے ذہن میں تھی ، یہ گفتگو عربی زبان کے بہت بڑے ماہر ابن طیب الفاسی کی ہے جو انہوں نے ابن اجدابی کی کتاب: کفایۃ المتحفظ کی شرح میں صفحہ: 51 پر کی ہے جو کہ درج ذیل ہے:
"کتاب " کفایۃ المتحفظ " کے مؤلف نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات وہی ذکر کی ہیں جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں، مؤلف کا یہ عمل ادب کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صرف وہی اوصاف بیان کرنا جو اللہ تعالی نے بیان کیے ہیں اس میں ایک تو اتباع ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اتباع کے علاوہ کچھ پسند نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں اظہار ناتوانی اور عاجزی ہے کہ انسان آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان خود ساختہ الفاظ کے ذریعے بیان ہی نہیں کر سکتا ، اسی لیے اکابرین کرام عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ کرتے ہوئے صرف اسی پر اکتفا کرتے تھے جو کتاب و سنت میں بیان ہوا ہے، اپنی طرف سے خود ساختہ جملوں اور لفظوں کو استعمال نہیں کرتے تھے۔"" مختصراً ختم شد

" معجم المناهي اللفظية " (ص/362-363)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب