اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اسلام اوراس کا یورپ پراثر کے موضوع میں مقالہ

14070

تاریخ اشاعت : 01-05-2003

مشاہدات : 9543

سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی اوران کے دینی افکار اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعدوالی صدی کومدنظررکھتے ہوۓ ظہوراسلام اوراس کے پھیلنے پربحث کریں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی افکار کی تین لحاظ سے تقسیم کرتے ہوۓ تفصیل کے ساتھ شرح کریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی اوران کے اعتقاد وخلفیات اورعمومی طورپر ساتویں صدی کے معاشرہ پران افکار کا انعکاس کس طرح ہوا ؟
جزیرہ عرب سے یورپ میں اسلام کس طرح اورکب پہنچا ، اورمغرب میں عیسائیوں پراورمغربی ممالک اوراس قریبی مناطق میں اسلام کے اثر کی وضاحت کریں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


پہلا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم افکار اپنی طرف سے نہیں لاۓ بلکہ جو بھی لاۓ ہیں وہ اللہ تعالی کی طرف سےہیں اوراللہ کے وحی کردہ ہیں ۔

دوسرا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی :

علی الاطلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پربسنے والوں میں سے سب سے اعلی اوراشرف نسب رکھتے ہیں ، جس کی گواہی ان کے دشمن بھی دیتے تھے ، اسی لیے اس وقت جبکہ ابھی ابوسفیان ( رضي اللہ تعالی عنہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے نےبھی رومی بادشاہ کےسامنے شہادت دی کہ اس کی قوم سب سے اعلی واشرف ہے اوراس کا قبیلہ بھی سب سے اشرف ہے اورپھر اس قبیلے کی شاخ میں جوسب سے اشرف شاخ ہے اس سے اس کا تعلق ہے جویہ نسب رکھتے ہیں :

محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن محد بن عدنان ۔۔۔۔ بن اسماعیل بن ابراھیم علیھماالسلام ۔

اللہ تعالی نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوچالیس برس کی عمرمیں جوکہ سن کمال ہے میں نبوت کا تاج پہنایا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوامر نبوت میں سب سے پہلے جس کی ابتدا ہوئ وہ خواب تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوبھی خواب دیکھتے وہ روشن صبح کی طرح ظاہر ہوجاتی ۔

کہا جاتا ہے کہ یہ خواب چھـ مہینہ رہے اورنبوت کی مدت تئيس برس پرمحیط ہے تویہ خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں ، پھر اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت سے سرافراز فرمایا اورفرشتہ آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غارحراء میں تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخلوت پسندتھی تواللہ تعالی نے سب سے پہلے جوآیات نازل فرمائيں اقرء باسم ربک الذی خلق العلق ( 1 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بتدریج تھی :

مرتبہ اولی نبوت ،

دوسرامرتبہ : قریبی رشتہ داروں کو

تسرا مرتبہ : اپنی قوم کو

چوتھا مرتبہ : ساری عرب قوم جس کے پاس پہلے بھی نبی آۓ تھے

پانچواں مرتبہ : سب انسانوں اورجنوں کو آخری زمانے تک ۔

اس کے بعد تین سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم چوري چھپے دعوت کا کام کرتے رہے ، پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائ :

تواب آپ اس حکم کوجو آپ کودیا جارہا ہے اسے کھول کرسنا دیجۓ ! اورمشرکوں سے اعراض کیجۓ الحجر ( 94 ) ۔

جوکچھ اوپربیان ہوا ہے ہم نے اسے زادالمعاد سے استفادہ کیا ہے دیکھیں زادالمعاد لابن قیم ( 1 / 71 ) ۔

تیسرا :

اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کی دعوت دیتے تھے اس کے متعلق ابوسفیان ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی زبان سے نکلے ہوۓ الفاظ ہی کافی ہیں جوکہ اس وقت مسلمان نہیں ہوۓ تھے ۔

عظیم روم ھرقل نے ابوسفیان ( رضي اللہ تعالی ) عنہ کوکہا تووہ تمہیں کس چيز کا حکم دیتا ہے ؟ ابوسفیان نے جواب دیا : وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اللہ وحدہ کی عبادت کریں اوراس کے ساتھـ کسی کوبھی شریک نہ ٹھرائيں ، اوروہ ہمیں اس سے بھی منع کرتے ہیں جس کی عبادت ہمارے آباءواجداد کرتے رہے ۔

اوراسی طرح وہ ہمیں نماز پڑھنے ، صدقہ دینے اورعفت و عصمت ، اورعھدوپیمان کا پاس کرنا اورامانت کی ادائيگی کا حکم دیتا ہے ۔

توابوسفیان کی اس کلام پرھرقل نے کچھ طرح تعلیق چڑھائ :

اورنبی کی یہی صفات ہوتی ہے مجھے اس کا علم تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میرا یہ خیال نہیں تھا کہ تم میں سےہوگا ، اگرتوجوکچھ تم نے کہا ہے وہ سچ ہے توعنقریب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے اس پاؤں والی جگہ کے مالک بنیں گے ، اگرمجھے علم ہوکہ میں وہاں تک پہنچ سکوں توان تک پہنچنے کے لیے سفرکی تکلیف برداشت کروں ، اوراگرمیں وہاں ہوتا تواس کے قدم دھوتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2782 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1773 ) ۔

چوتھا :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ مسندخلافت پرجلوہ افروز ہوۓ ،ان کے دور خلافت میں جوبڑے بڑے کام ہوۓ وہ یہ ہیں : لشکراسامہ رضي اللہ تعالی عنہ کی روانگی ، مرتدین اورمانعین زکاۃ اورمسیلمہ کذاب سے جنگ ، اورقرآن کریم کا جمع کرنا ۔

ان کی وفات کے بعد عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ زمام خلافت اپنے ھاتھ میں لیتے ہیں ، جو کہ سابقین الاولین اورعشرہ مبشرہ اورخلفاء راشدین میں سے ایک ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اورکبارصحابہ کرام اورزھاد میں سے تعلق رکھتے ہیں ۔

ان کے دور خلافت میں اسلامی فتوحات بہت زیادہ ہوئيں تودمشق اور اردن ، عراق وبیت المقدس اورمصر کی فتوحات سامنے آئيں تاریخ ھجری کا آغاز کرنے کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہے جو کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کے بعد شروع کی ۔

عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ تئيس 23 ھجری کے آخرمیں ایک مجوسی قاتل ابولؤلؤ کے ہاتھوں فجرکی نماز میں زخمی ہونے کی بنا پرقتل ہوۓ اوریکم محرم کواس دنیا فانی سے شھادت کا جام پی کر خالق حقیقی سے جاملے ۔

ان کے بعد زمام اقتدار عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے ھاتھ آئ اوروہ خلیفہ المسلمین کی مسند پربراجمان ہوۓ ، ان کا تعلق بھی عشرہ مبشرہ صحابہ کرام سے ہے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی تھی اورقدیم مسلمانوں سابقون الاولون میں سے ہیں ۔

انہیں ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی دعوت پراسلام لانے کا شرف حاصل ہے ، عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کویہ بھی شرف حاصل ہے کہ انہوں نے دونوں ھجرتیں ھجرت حبشہ اورھجرت مدینہ بھی کی ، اورسب سے بڑا ا‏عزاز یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبیٹیوں سے رشتہ ازواج میں منسلک ہوۓ پہلے رقیہ رضي اللہ تعالی عنہا سے عقد ہوا جب وہ فوت ہوگئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی اوررقیہ رضي اللہ تعالی عنہا کی بہن ام کلثوم رضي اللہ تعالی عنہا کا نکاح عثمان غنی رضي اللہ تعالی عنہ سے کردیا ۔

ان کی خلافت کا دور خلاف راشدہ کا سب سے لمبا اورطویل دور ہے جو کہ بارہ سال کے عرصہ پرمحیط نظرآتا ہے ، اوربالآخر پینتیس 35 ھجری میں اسی 80 برس سے زيادہ کی عمرپاکر شھید کردیے گۓ‌ رضي اللہ تعالی عنہ ۔

پھران کے بعد علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ نے زمام اقتدار ھاتھ میں لی یہ بھی عشرہ مبشرہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں جنت کی خوشخبری سے نوازا گيا تھا ، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤاخاتی بھائ اورچچا زاد ہیں اورعورتوں کی سردارنبی صلی للہ علیہ وسلم کی لخت جگر فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے خاوند ہونے کی بنا پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا بھی شرف حاصل ہے ۔

سابقون الاولون اورعلماء ربانی اورمشہورومعروف بہادروں اورقابل ذکرزاھدوں اورمروف خطباء میں‎ سے ہیں ، قرآن کریم جمع کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔

پانچواں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرانی ھدایت سے راہنماۓ لینے کی بنا پرھدایت وسیدھے راہ پرتھے بلکہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے قول کے مطابق توان کا توخلق ہی قرآن مجید تھا ،

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس اخلاق پراسلام کے ظہورکے بعد تھے اسی اخلاق کےمالک اسلام سے قبل بھی تھے ، لیکن صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں کامل اخلاقیات کا مالک بنایا اوراس کی تزیین فرمائ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجب پہلی وحی کا نزول ہوا توخدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کوگنتے ہوۓ کہنے لگیں :

اللہ تعالی کی قسم اللہ تعالی آپ کوہرگزرسوا نہیں کرے گا ، اس لیے کہ آپ توصلہ رحمی کرتے اورکمزوروناتواں لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ، اورفقیرکوکھلاتے اورمہان کی عزت کرتے ،اور حق پردوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 160 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے علاوہ ان کے دشمنوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکرم وشجاعت اوربہادری اور رحم اورحسن کلام اورکثرت عبادت اورصدق وامانت کے وصف سے نوازا ہے جس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل بھی تھے ۔ الخ

ان سب اخلاقیات کی تلخیص اللہ تعالی کے اس قول میں پائ جاتی ہے فرمان باری تعالی ہے :

بلاشبہ آپ توخلق عظیم کے مالک ہیں القلم ( 4 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کا بہت ہی عظیم اثر تھا حتی کہ بعض مشرک اورکافر تو صرف ان کے اخلاق سے ہی متاثرہوکر اسلام میں داخل ہوۓ جس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایک نجد کی جانب ایک فوجی ٹکڑی روانہ کی تووہ بنوحنیفہ کے ایک آدمی کوپکڑلاۓ جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا ۔

اسے لا کرمسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آۓ ، اورکہنے لگے ثمامہ کوکھول دو ، توثمامہ مسجد کے قریب ہی کھجوروں کے باغ میں جا کرغسل کرکے مسجد میں داخل ہوکراشھد ان لاالہ الا اللہ وان محمد ا رسول اللہ ، پکاراٹھتا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4114 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1764 ) ۔

چھٹا :

یورپ میں اسلام کئ ایک طریقوں سے پہنچا جن میں چند ایک یہ ہیں :

1 - مسلمانوں کا پوری دنیا کے لوگوں کواسلام کی دعوت دینے پرحریص ہونا ، اسی بناپر ( 92 ) ھجری الموافق ( 711م ) میں طارق بن زياد نے اندلس فتح کیا اورمغربی یورپ میں فتوحات کا سلسلہ اسی چلتا رہا حتی اس کی انتھاء فرانس کی جنوب مشرق میں جاکر ( 114 ) ھجری میں ہوئ ۔

2 - شمالی افریقہ اورمشرق وسطی اورجنوبی ایشیا سے روزگار کے سلسلے میں آنے والے لوگ بھی اسلام کے پھیلنے کا سبب بنے ۔

3 - یورپی لوگوں کا بعض ممالک کے لوگوں کواپنے ملک میں کام کی غرض سے طلب کرنا مثلا : جرمنی کے لوگوں نے ترکیوں کو اپنے ہاں کام کی غرض سے ملازمت دی ۔

4 - یورپی اوردوسرے ممالک میں مبلغین کا وجود ۔

5 - عثمانی سلطنت کا یورپ میں نفوذ اوراثرورسوخ ۔

6 - اصل یورپی لوگو ں کا قبول اسلام اورپھر ان کا مبلغ بن کردعوت اسلام کا کام کرنا ۔

7 - مسلمانوں اوریورپ کے درمیان تجارتی لین دین اوررابطہ ۔

8 - یورپین کا بذات خود اسلام قبول کرنا

9 - یورپی افکار اورسوچ کے طریقہ میں تبدیلی ۔

10 - کنیسہ کی ان خرافات کا ترک کرنا جو وحی کے مخالف تھیں اورعلم تجریبی پراعتماد جس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی ۔

11 - اسلامی کیمونٹی کی مسلمان ہنر مندوں اورڈپلومہ ہولڈروں کےذریعہ یورپی کمپنیوں اورریسرچ اورایجادوں میں شرکت ، پھراسلامی کیمونٹی کا یورپ میں عددی اعتبارسے بڑھ جانا جس کی بنا پروہاں مساجد اورمدارس اورمراکزکا قیام کرنا وغیرہ ۔۔۔ الخ ۔

تواس طرح مسلمانوں کی تاثیر وسعت اختیار کرتی گئ حتی کہ اس سے دین اسلام کے دشمن مثلایھودی خوف کھانے لگے ، تواس کے بارہ میں اسرائیلی صحیفہ " ھارٹس " اپنے جولائ ( 2001 ) کے آخری شمارہ میں لکھتا ہے " جس طرح کہ مغربی یورپ میں حال ہے اسی طرح یونائيٹڈ سٹیٹ امریکہ میں بھی مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگئ جس سے ان کا سیاسی نفوذ بھی بڑھ گيا ہے ۔۔۔ اسی لیے بلاشبہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اوران کا سیاسی قد کاٹھ بڑھ جانا مستقبل میں واشنگٹن پردباؤ ڈالنے میں ایک اھم کردار ادا کرے گا ، اورخاص کروہ عرب طالب علم جو کہ سیاسی ناحیہ سے بہت ہی زياد متحرک ہیں اوران کی نشاطات بہت تيز ہیں ۔

اوراسی طرح یھودیوں کی تعداد میں کمی بھی اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ عرب امریکی معاشرے میں گھل مل گۓ ہیں ، تویہ سب کچھ آنےوالے دنوں اورمستقبل قریب میں واشنگٹن پردباؤ میں اہم کردار ادا کرے گا ، جو کہ اس وقت محسوس بھی کیا جارہا اورنظر بھی آرہا ہے کہ کانگرس پرعربی جماعتوں کا دباؤ ہے ۔۔۔

اس کی مزید تفصیل دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پررابطہ کریں

http://www.albayan-mag.com/Detail.asp?InNewsItemID=47240

1 - یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ، آج سے دس برس قبل یورپ میں تقریبا بار( 12 ) ملین مسلمان تھے ۔

2 - مساجد اورمدارس اورمراکز اسلامیہ کا پھیلاؤ

3 - یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں شرعی حجاب اورپردہ کا عام ہونابھی ایک سبب ہے ۔

4 - اسلامی کانفرنسوں اورنمائشوں کا اہتمام اورایسی کمپنیوں کی بنیاد جوشرعی طریقہ پرذبح کرتی اور فوت شدگان کوشرعی طریقے پرکفن دفن کا انتظام کریں ۔

اس کے علاوہ اور بھی کئي ایک عوامل اوراسباب کارفرما ہيں ۔

اللہ تبارک وتعالی ہی سیدھے راہ کی طرف ھدایت دینے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد