جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

نوافل یا فرض نماز کی ادائیگی کیلیے طواف روک سکتا ہے؟

سوال

 حطیم کے اندر نماز ادا کرنا چاہتا ہے اس حال میں کہ حطیم سے باہر طواف کی ادائیگی میں مصروف بھی ہےاور یہ واضح رہے کہ حطیم میں اس جگہ سے داخل ہوگا جو کعبہ میں شمار نہیں ہوتی، کیا اس طرح نماز سے طواف منقطع ہو جاتا ہے؟ اور کیا دورانِ طواف نماز جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حطیم کعبہ کا حصہ ہے، اس لیے حطیم کے اندر سے طواف صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ طواف کیلیے پورے بیت اللہ کے ارد گرد چکر لگانا ضروری ہے، اس کا تفصیلی بیان سوال نمبر: (46597) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

صحیح موقف کے مطابق طواف میں  تسلسل قائم رکھنا  شرط ہے، یہی موقف مالکی اور حنبلی  فقہائے کرام کا ہے ، تاہم معمولی وقفہ قابل معافی ہے، لیکن اگر فرض نماز کھڑی ہو جائے یا نماز جنازہ ہو تو انہیں ادا کر کے طواف مکمل کرے، پھر کچھ فقہائے کرام طواف کو نماز جنازہ کیلیے روکنے پر اختلاف رکھتے ہیں، کچھ اہل علم با جماعت وتر اور تراویح  کیلیے بھی طواف روکنے کو جائز قرار دیتے ہیں، اسی طرح اگر کسی سنت مؤکدہ نماز مثال کے طور پر فجر کی دو سنتیں فوت ہونے کا خدشہ ہو اور طواف نفل ہو تب بھی طواف روکنے کی اجازت  دیتے ہیں، لیکن اگر طواف فرض ہو توصرف  فرض نماز  یا جنازے کیلیے طواف روکا جا سکتا ہے۔

حطاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرض طواف صرف فرض نماز کیلیے ہی روکا جا سکتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص فرض طواف کر رہا ہو اور اسے خدشہ ہو کہ نمازِ فجر کھڑی ہونے کی وجہ سے فجر کی سنتیں رہ جائیں گی تو سنتیں ادا کرنے کیلیے طواف مت روکے، البتہ اشہب رحمہ اللہ کے سماع کے مطابق فجر کی سنتیں فوت ہونے کا خدشہ ہو تو طواف روک  دے [اور فجر کی نماز سے پہلے سنتیں ادا کرے] پھر فجر کی نماز کے بعد اپنا بقیہ طواف پورا کرے" انتہی
"مواهب الجليل" (3/ 77)

جن فقہائے کرام نے طواف کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ شافعی فقہائے کرام ہیں ، وہ بھی اس مسئلہ میں اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے بغیر کسی عذر کے طواف  میں وقفہ کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔

چنانچہ "حاشية قليوبي وعميرة" میں ہے کہ:
"دورانِ طواف کھانا پینا، تھوکنا، یا انگلیاں چٹخانا، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنا، کمر پر پیچھے ہاتھ باندھنا ، بول و براز روک کے رکھنے کی حالت  میں رہنا، ۔۔۔طواف کو فرض کفایہ ، یا نوافل، یا سجدہ تلاوت، یا سجدہ شکر  کرنا  بغیر کسی عذر کے مکروہ ہے "انتہی
المجموع (8/ 65)، المغنی (3/ 197)، مطالب أولي النهى (2/ 399)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسئلہ : اگر دورانِ طواف فرض نماز کھڑی ہو جائے تو کیا کرے؟
ہم کہیں گے کہ: علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے:
کچھ علمائے کرام کہتے ہیں: اگر نفل طواف  ہو تو روک کر نماز پڑھ لے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب نماز کھڑی ہو جائے تو صرف فرض نماز  ہی ہو گی) چنانچہ طواف کو زیادہ سے زیادہ نفل نماز کے برابر قرار دے سکتے ہیں؛ لہذا جیسے ہی فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو گی تو ہم نفل چھوڑ کر فرض ادا کریں گے اور پھر طواف مکمل کریں گے، لیکن اگر طواف بھی فرض ہو تو پھر طواف مکمل کرے چاہے فرض نماز چھوٹتی ہے تو چھوٹ جائے۔
دیگر علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: طواف کے چکروں میں تسلسل  قائم رکھنا شرط نہیں ہے اس لیے درمیان میں وقفہ کرنا جائز ہے، لہذا طواف کے چکروں کے درمیان میں نماز کیلیے وقفہ کرے اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔

ہمیں یہاں پر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی بھی ایک عبادت کے اجزا میں تسلسل ہونا چاہیے؛ تا کہ ایک عبادت مکمل یکجا ہو ، تاہم اگر کسی عبادت کے اجزاء میں تسلسل ختم کرنے کی دلیل ملے تو بقدر دلیل اس عبادت کے اجزا میں فاصلہ ڈالا جا سکتا ہے، مذکورہ بالا مسئلے میں راجح موقف یہ ہے کہ اگر فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو طواف دوبارہ مکمل کرنے کی نیت سے طواف چھوڑ کر نماز با جماعت ادا کر سکتا ہے۔

اب اگر کوئی شخص طواف  حطیم کے پاس جا کر روک دیتا ہے تو اب نماز مکمل ہونے کے بعد طواف کا یہ چکر شروع سے دوبارہ لگائے گا یا وہیں سے طواف مکمل کے گا جہاں سے روکا تھا؟
اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، چنانچہ حنبلی مذہب میں مشہور موقف یہی ہے کہ  شروع سے طواف کا یہ چکر دوبارہ  لگائے گا۔
لیکن راجح بات یہی ہے کہ دوبارہ چکر لگانے کی شرط صحیح نہیں ؛ لہذا وہ شخص وہیں سے طواف شروع کر  دے جہاں سے اس نے ختم کیا تھا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کیلیے رکنے سے پہلے کا جتنا بھی طواف اس نے کیا تھا وہ صحیح  تھا  اور جو عبادت صحیح انداز میں ہوئی ہو اسے دوبارہ  کرنا ضروری نہیں ہوتا؛ کیونکہ اگر ہم اسے دوبارہ کرنے پر مجبور کریں گے تو ہم ایک عبادت دو بار کروائیں گے اور اس کی شریعت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

مسئلہ: کیا نمازِ جنازہ کیلیے طواف روک سکتا ہے؟
ظاہری طور پر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ؛ چونکہ  نماز جنازہ مختصر ہوتی ہے اس طرح سے طواف کے تسلسل میں کوئی زیادہ وقفہ پیدا نہیں ہو گا اس لیے یہ معاف ہو گا" انتہی
"الشرح الممتع" (7/ 276)

معمولی وقفے کے بارے میں سلف سے کچھ آثار ملتے ہیں، جیسے کہ جمیل بن زید کہتے ہیں کہ : "میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے سخت گرمی کے دن میں تین چکر لگائے  تو انہیں گرمی لگنے لگی  اس پر وہ حطیم میں داخل ہو گئے اور کچھ دیر سستائے، پھر نکل کر اپنا بقیہ طواف مکمل کیا"

اسی طرح عطاء رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ:
"دوران طواف کچھ دیر سستانے کیلیے اگر کوئی بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"
مزید کیلیے: "مصنف ابن أبي شيبة" (4/454)  اور "المحلى"از: ابن حزم (5/219) ملاحظہ کریں۔

خلاصہ یہ ہوا کہ :
طواف میں تسلسل قائم کرنا لازمی امر ہے، چنانچہ صرف فرض نمازوں یا نماز جنازہ کیلیے  درمیان میں وقفہ کرنا جائز ہے، نیز نفل طواف کی صورت میں ایک رکعت وتر کیلیے  بھی رخصت کی گنجائش ہے وہ بھی اس شخص کیلیے  جو وتروں کے فوت ہونے کا اندیشہ رکھے؛ کیونکہ اس کیلیے معمولی وقت درکار ہو گا۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب