الحمد للہ.
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ بعض لوگ دورانِ طواف ازدھام کے دنوں میں حطیم کے ایک دروازے سے داخل ہوکردوسرے دروازے سے نکل جاتےہیں ، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ آسان اورزيادہ قریب ہے، لیکن ایسا کرنا بہت بڑی غلطی ہے ، کیونکہ جوشخص بھی ایسا کرے وہ بیت اللہ کا طواف نہيں کررہا اوراس کا یہ طواف شمار نہيں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( وليطَّوفوا بالبيت العتيق )
اوراللہ تعالی کے قدیم گھر کا طواف کریں الحج ( 29 )
اورپھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حطیم کے پیچھے سے ہی طواف کیا ہے ، لہذا جب کوئي انسان حطیم کے اندرسے طواف کرتا ہے تواسے بیت اللہ کا طواف کرنے والا شمار نہيں کیا جائے گا ، اوراس کا طواف صحیح نہيں ہوگا ، یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے اورخاص کرجب طواف رکن ہو جس طرح عمرہ کا طواف اورطواف افاضہ رکن ہے ، اوراس کا علاج یہ ہے کہ ہم حجاج کرام کےسامنے یہ بیان کریں کہ ان کا طواف اس وقت تک صحیح نہیں جب تک پورے بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے اورحطیم بھی بیت اللہ میں شامل ہے ۔
حطیم یعنی حجر کوحجراسماعیل کا نام دینا :
اس مناسبت سے میں چاہتا ہوں کہ یہ بیان کردوں کہ حطیم کوبہت سے لوگ حجر اسماعیل کا نام دیتے ہيں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسماعیل علیہ السلام تواس کے بارہ میں جانتے تک نہ تھے ، اورنہ ہی یہ ان کا گوشہ ہے ، بلکہ یہ تواس وقت بنا جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی اوران کے پاس خرچہ کم ہوگیا تواوروہ ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پرپورے کعبہ کی تعمیر نہ کرسکے توانہوں نے اس جانب کوباہرنکال دیا اوراسے حطیم اورحجر کہا جانے لگا ، لہذا اسماعیل علیہ السلام کواس کے بارے میں کوئى علم نہيں اورنہ ہی ان کا اس میں کوئى عمل ہی شامل ہے ۔
اورکچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جوطواف کرتے وقت کعبہ کواپنے بائيں جانب رکھنے کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ طواف کررہا ہے اوراپنے کسی دوست کے ہاتھوں کوپکڑ کرعورتوں کے بچاؤ کے لیے حصاربنائے ہوئے طواف کررہا ہے اورکعبہ کواپنے پیچھے کیا ہوا ہوگا اوراس کا دوسرا دوست اس طرح طواف کررہا ہوتا ہے کہ کعبہ اس کے سامنے ہوتا ہے ، یہ بھی بہت بہت بڑی غلطی ہے ۔
اس لیے کہ اہل علم کہتے ہيں :
صحیح طواف کیلئے دوران طواف کعبہ کوبائيں جانب رکھنا شرط ہے ، لہذا اگر کسی نے کعبہ اپنی پیٹھ پیچھے یا سامنے رکھا یا پھر اپنی دائيں جانب رکھا تواس کا یہ طواف صحیح نہيں ہوگا ، چنانچہ انسان پرواجب ہے کہ وہ اس معاملہ کا خیال رکھے ، اوراسے پورے طواف میں کعبہ کوبائيں جانب رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
اورکچھ لوگ کعبہ کوشدید بھیڑ کی وجہ سے چند قدم اپنی پیٹھ پیچھے یا پھرسامنے کرلیتے ہیں ، یہ بھی غلط ہے ، لہذا آدمی پرواجب ہے کہ وہ اپنے دین کے لیے احتیاط سے کام لے ، اورعبادت میں اللہ تعالی کی حدود کا علم رکھے قبل اس کے کہ وہ ان حدود میں جاپڑے تاکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت بصیرت کے ساتھ کرسکے ۔
اورآپ اس پرتعجب کرینگے کہ کوئی شخص جب کسی ایسے ملک جانے کا ارادہ کرے جس کے راستے کا ہی اسے علم نہ ہو تواس ملک کی جانب اس وقت تک سفر نہیں کرتا جب تک وہ اس کے بارہ کسی سے پوچھ نہ لے اوراس راستے کو تلاش نہ کرلے ، اورپھر یہی نہيں بلکہ وہ آسان ترین راستہ تلاش کرتا ہے تا کہ وہاں آسانی اورسہولت کے ساتھ پہنچ سکے ، اور بغیر راستہ بھولے اورضائع ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے ۔
لیکن دینی معاملات میں بہت سارے لوگ - بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ - عبادت میں مشغول ہوجاتے ہیں اورانہيں اس کے بارہ میں اللہ تعالی کی حدود کا علم ہی نہیں ہوتا ، یہ کمی ہے بلکہ بہت بڑی کوتاہی ہے ۔
ہم اللہ تعالی سےاپنے اوراپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ہدایت طلب کرتے ہیں ، اوردعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں میں سے بنائے جو ان حدود کا علم رکھتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا ہے ۔ انتہی .