الحمد للہ.
جو شخص بھی جنبی حالت میں بیت اللہ کا طواف کرے تو اس کا طواف صحیح نہیں ہے، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (16/52) میں سہ سرخی: "جنابت کی وجہ سے جن کاموں کو کرنا حرام ہے۔" کے تحت ہے کہ:
"اسی طرح طواف کرنا حرام ہے، چاہے طواف فرض ہو یا نفل؛ کیونکہ طواف بھی نماز کے حکم میں ہوتا ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیت اللہ کا طواف کرنا نماز کا حکم رکھتا ہے، الا کہ اللہ تعالی نے اس میں بات کرنا جائز قرار دیا ہے۔) -اس حدیث کے بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے- چنانچہ جنبی کا طواف صحیح نہیں ہو گا۔ تاہم ایسے شخص کے ذمہ اونٹ ذبح کرنا لازم ہو گا؛ کیونکہ ان کے ہاں وضو طواف کے لیے شرط نہیں ہے بلکہ واجب ہے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حج میں بطور دم اونٹ دو صورتوں میں واجب ہوتا ہے: جب جنبی حالت میں طواف کرے، اور جب وقوفِ عرفہ کے بعد جماع کر لے۔" ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جنبی حالت میں طواف افاضہ کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"اس بنا پر لازمی ہے کہ وہ طوافِ افاضہ دوبارہ کرے؛ کیونکہ اس شخص نے جنابت کی حالت میں طواف کیا ہے، اور جنابت کی حالت میں کیا گیا طواف صحیح نہیں ہوتا؛ کیونکہ جو شخص جنبی ہو اس کے لیے مسجد میں رکنا منع ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ ترجمہ: اور نہ ہی جنبی شخص [مسجد میں آئے۔] الا کہ وہ گزرنے والا ہو۔ [النساء: 43] چنانچہ اگر یہ شخص شادی شدہ ہے تو اپنے اہل خانہ سے دور رہے، اور مکہ واپس آ کر طواف افاضہ کرے۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن عثیمین : (22/ 363، 364)
اس بنا پر: آپ کا دوست ابھی بھی اسی عمرے کے احرام میں ہے جس میں اس نے جنابت کی حالت میں طواف کیا تھا، اس پر لازم ہے کہ احرام پابندیوں کا خیال کرے، اور مکہ جا کر طواف و سعی کرے، اور پھر بال منڈوا یا کتروا لے۔ اس طرح اس کا عمرہ مکمل ہو جائے گا اور پھر احرام کھول دے۔
واللہ اعلم