الحمد للہ.
ہم آپ كو كئى ايك باتيں كہيں گے اللہ سے اميد ہے كہ اس سے آپ كو ضرور فائدہ ہوگا:
اول:
آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ آپ اس بيوى كى بات نہيں كر رہے جو آپ كے گھر اور آپ كى اطاعت ميں ہے، بلكہ آپ تو رخصتى سے پہلے اس بيوى كے متعلق بات كر رہے ہيں جو ابھى اپنے گھر والوں كى مسؤليت اور ذمہ دارى ميں ہے، اور اس پر آپ كى اطاعت نہيں ہے.
دوم:
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ آپ ميں ايسى صفات پائى جاتى ہيں جنہيں ہو سكتا ہے آپ كى بيوى پسند نہ كرے اور نہ ہى اس كے گھر والے اس كو پسند كريں، اور اسى طرح وہ بھى ہے، اور جس پر آپ ہيں اس پر آپ مستقل حكم نہيں لگا سكتے، اور نہ ہى وہ جس پر ہے شادى كے بعد اس پر يہ حكم نہيں لگايا جا سكتا، كيونكہ عادتا شادى كے بعد ايك گھر ميں خاوند اور بيوى اكٹھے ہو جائيں تو ان ميں بہت سارى تبديلياں واقع ہو جاتى ہيں، اور طبعتيں بدل جاتى ہيں، اور عملى اور نظرياتى اتفاق پيدا ہو جاتا ہے، جس كے سايہ ميں خاوند اور بيوى اپنى ازدواجى زندگى بسر كرنا شروع كر ديتے ہيں.
سوم:
آپ يہ مت بھوليں كہ آپ نسبتا ايك كم عمر بيوى كے ساتھ شادى شدہ ہيں، اور اس عمر ميں لڑكى كا اپنى والدہ كے ساتھ تعلق ركھنا ايك عام بات ہے، اور غالب حالات ميں يہ چيز مستقل نہيں رہتى جب وہ آپ كے گھر آ جائيگى تو بدل جائيگى.
اس ليے آپ كے ساتھ اس كا جو تعلق ہے اور جو كچھ ہوتا ہے اس كا اپنى والدہ كو بتانے سے آپ تعجب مت كريں، ہو سكتا ہے اس كى جانب سے يہ صرف والدہ كو بتانا مقصود ہو كہ وہ آپ كے ساتھ خوش ہے، اور خراب ترين حالت يہ ہو سكتى ہے كہ اس كى والدہ كا اس پر تسلط ہو تو آپ كو يہ برداشت كرنا ہوگا، كيونكہ لوگو كى طبعتيں مختلف ہوتى ہيں، جو شخص لوگوں كے حالات كو جانتا اور ان كے تصرفات كو ديكھتا ہے وہ اس كا انكار نہيں كريگا.
بلكہ عقلمند شخص تو اسے برداشت كرتا ہے؛ كيونكہ اس كے ليے ايك وقت مقرر ہے اور يہ سب كچھ اس ميں ختم ہو جائيگا، اور وہ وقت بيوى كا خاوند كے گھر ميں آنا ہے، جيسے ہى وہ اپنے خاوند كے گھر آ كر رہنے لگےگى تو اس ميں تديلياں شروع ہو جائينگى.
بلكہ ہم تو يہ بھى بعيد نہيں سمجھتے كہ آپ كى ساس كا رويہ بھى آپ كے ساتھ بہتر ہو جائيگا، بلكہ اگر آپ كى ساس اپنى بيٹى كى سعادت چاہتى ہے تو اس كے سامنے اس كے علاوہ كوئى اور طريقہ نہيں.
چہارم:
ہمارے سائل بھائى: ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنى ساس كے ساتھ ميٹھى بات چيت اور نرم رويہ اختيار كر كے اس كا دل جيتنے كى كوشش كريں، اور اچھے افعال و اعمال كريں، اور اسے ہديہ اور تحفہ وغيرہ ديں، اور اس كے ساتھ نرم رويہ ميں بات چيت كريں.
اس طرح وہ بھى اپنى بيٹى كے ساتھ خوش اور سعادت مندى حاصل كريگى، كيونكہ بيٹى پر ماں كى عظيم تاثير ہوتى ہے، اور اس كى راہنمائى ماں ہى كرتى ہے، اور خاص كر جب بيٹى چھوٹى عمر كى اور كم تجربہ ركھتى ہو، جيسا كہ آپ كى بيوى كى حالت ہے.
پنجم:
آپ كو شادى يعنى رخصتى جلدى كرنى چاہيے اس ميں تاخير مت كريں؛ تا كہ آپ اور آپ كے سسرال ميں كوئى جھگڑا نہ ہو، يا پھر آپ اور آپ كى بيوى كے مابين كوئى بات نہ ہو جائے جو شادى اور رختصى ميں تاخير كا باعث بنے يا پھر اللہ نہ كرے اس شادى كو ہى ختم كر دے.
ششم:
آپ كى بيوى كا آپ كو كہنا كہ " وہ آپ سے محبت كرتى ہے " آپ اس بات كو اہميت ديں اور اسے حقيقت كے رنگ ميں ديكھيں جو اس بات كى دليل ہے كہ اس كى ماں كى اس پر كوئى تاثر نہيں كہ آپ كى بيوى آپ كو پسند نہيں كرتى يا پھر آپ سے بغض ركھتى ہے.
آپ كا اپنى بيوى اور اپنى ساس كے ساتھ يہ معاملہ بہت اہم ہے، اس ليے ہميں تو يہى لگتا ہے كہ آپ كى بات صحيح نہيں كہ:
" ميں اپنى غلطى كا اعتراف كرتا ہوں كہ بہت ہى قليل عرصہ ميں ميں نے بہت جلدى سارى محبت اور بہت سارے تحفے اس پر نچھاور كر ديے ہيں "
بلكہ آپ نے جو كچھ كيا ہے وہ صحيح ہے، آپ كو اس سے اپنى محبت ميں اور اضافہ كرنا چاہيے، اور زيادہ سے زيادہ تحفے دے كر آپ اس كے دل كو جيتنے كى كوشش كريں، اور اس ميں اس كى والدہ كو ضرور تحفہ ديں.
ہفتم:
كوئى ايسى عقلمند ماں نہيں ہے جو اپنى بيوى كى سعادت نہ چاہتى ہو، يا پھر اپنى بيٹى كو بغير شادى كے گھر بٹھائے ركھنا پسند كرتى ہو، اس ليے آپ ايك لحظہ كے ليے بھى مت سوچيں كہ آپ كى ساس آپ كے ساتھ جو كچھ كر رہى ہے وہ اپنى بيٹى كو شادى سے روكنے كے ليے ہے.
بلكہ عاقل ماں باپ كے ليے تو اپنى بيٹى كا شادى كر كے اپنے خاوند كے گھر جانا ہى انتہائى مقصود ہوتا ہے.
ہشتم:
آخر ميں ہم يہ نصيحت نہيں كرتے كہ آپ اپنى بيوى كو طلاق ديں، اور ہمارى رائے كے مطابق اس مشكل كا يہ حل بھى نہيں كہ طلاق دے دى جائے، بلكہ اس سے تو مشكل اور بڑھے گى، كيونكہ آپ نے اس كا بطور بيوى تجربہ ہى نہيں كيا اور نہ ہى ماں كا.
بلكہ آپ نے اس كے ساتھ جو معاملات كيے ہيں وہ اس حالت ميں كيے ہيں كہ وہ تو ابھى اپنے گھر ميں كسى كے ماتحت رہ رہى ہے، اس ليے آپ كو يہ فيصلہ كرنے كا حق كہاں سے مل گيا كہ آپ كى شادى ناكام ہے، يا پھر آپ اس كے بارہ ميں حكم لگائيں كہ اس ميں آپ كى شريك حيات بننے كى صلاحيت نہيں ؟!
اس ليے آپ اس عرصہ ميں اس كے ساتھ زندگى پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور اپنى ساس كے ساتھ معاملات ميں اپنے رويہ اور طريقہ كو تبديل كريں، اور وہ اپنے والدين كے گھر رہتے ہوئے جو كچھ كرتى ہے جو آپ كو پسند نہيں اس پر اپنى بيوى كا مؤاخذہ مت كريں، بلكہ اسے اپنے گھر لانے ميں جلدى كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے سيدھى راہ كى راہنمائى فرمائے.
واللہ اعلم .