جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا ساس جو كہ بيٹى پر اثرانداز بھى ہے كى بنا پر بيوى كو طلاق دے دے ؟

145060

تاریخ اشاعت : 29-03-2011

مشاہدات : 4642

سوال

پہلے تو ميں اپنے بارہ ميں كچھ معلومات دينا پسند كرونگا، ميرى عمر انتيس برس ہے اور ميں انجينئر ہوں اور بہت تنظيم پسند ہوں صفائى اور خاموشى كو پسند كرتا ہوں اپنے تصرفات ميں توازن ركھنے والا اور عقل و دانش ركھتا ہوں اور ميں وضاحت و صراحت اور حقيقى محبت كو پسند كرتا ہوں، اسى طرح مصلحت كى دوستى كو ناپسند كرتا ہوں.
جب كسى شخص كے بارہ ميں علم ہو كہ وہ ميرى تحقير كرنے كى كوشش كر رہا ہے يا پھر وہ ميرى قدر نہيں كرتا تو ميں بہت جلد بھڑك اٹھتا ہوں، غالب طور پر ميں اپنا غصہ پى جاا ہوں اور موضع سے تجاہل كرتا ہوں.
ليكن مشكل يہ ہے كہ ميرى منگيتر جس كے بارہ ميں اپنى غلطى كا اعتراف كرتا ہوں كہ ميں نے اسے قليل سے عرصہ ميں ہى ہر قسم كے تحفہ تحائف ديے اور اسے سارى محبت بھى دى ہے اس كى عقل اور سارے تصرفات اس كى والدہ كے ہاتھ ميں ہيں.
ميں نے جس لڑكى سے نكاح كيا ہے اس كى عمر سترہ برس ہے اور ميرى بيوى نہ تو اپنے گھر سے باہر جاتى ہے اور نہ ہى لوگوں سے ميل جول ركھتى ہے، صرف اس كى والدہ يعنى ميرى ساس ہى سارے معاملات نپٹاتى ہے، حتى كہ ميرى اس سے شادى كے بعد بھى وہ اب ماں كے گھر ميں ہے اور رخصتى كا وقت بھى قريب آ رہا ہے.
اس كى والدہ ہمارى ٹيلى فون كاليں تك سنتى ہے اور ميرى بيوى كے سارے حالات كى خبر گيرى كرتى رہتى ہے اور ميرى بيوى كا موبائل بھى چيك كرتى ہے اور اسے اپنى سوچ اور افكار كے مطابق مجھے جواب دينے كا كہتى ہے.
مختصر يہ كہ اس لڑكى كى سوچ اور ارادہ سب كچھ ماں نے سلب كر ركھا ہے، ميں نے اس كى راہنمائى كرنے كى كوشش كى اور اسے كہا كہ وہ اس كے بارہ ميں اپنى والدہ كو مت بتائے ہمارے درميان جو باتيں ہوتى ہيں ان كى خبر بھى نہ ہو، ليكن اس كا كوئى فائدہ نہيں.
ميرے سامنے تو كہتى ہے كہ ميں اسے افشاء نہيں كرونگى، ليكن ميرى اپنى ساس كے ساتھ بات چيت سے پتہ چلتا ہے كہ اس نے ماں كو سب كچھ بتا ديا ہے، اور جس پر ميں اور بيوى نے اتفاق كيا ہوتا ہے اسے اس كى ماں تبديل كر ديتى ہے اور وہ ماں كى بات مان كر اپنے وعدہ سے مكر جاتى ہے.
اور بعض اوقات تو مجھے ايسے ميسج ملتے ہيں جو اس كى عمر سے بڑے ہوتے ہيں مجھے معلوم ہو جاتا ہے كہ ميرى ساس دخل اندازى كر رہى ہے، جب ميں اپنى منگيتر سے اس كے بارہ ميں ٹيلى فون پر بات چيت كرتا ہوں تو وہ ہڑ بڑا جاتى ہے اور اسے سمجھ نہيں آتى كہ وہ كيا كرے كيونكہ وہ ميسج اس كى عقل سے بڑا ہوتا ہے.
ميں اس طوالت پر آپ سے معذرت كرتا ہوں، مختصر طور پر ميرى مشكل درج ذيل ہے:
لڑكى اكھڑ اور تعصب و غصہ والى ہے، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ بات كو قبول نہيں كرتى، بلكہ اپنے سارے معاملات اپنى والدہ كے سپرد كر ديتى ہے، اور اس كى والدہ بھى بہت تعصب والى ہے، اور جو اس كى بات نہ مانے سے اس سے حقد و كينہ اور ناراضگى ركھتى ہے، چاہے ميں اس كى نناويں باتيں تسليم بھى كر لوں اور صرف ايك ميں مخالفت ہو جائے تو ميرى ساس مجھ سے ناراض ہو جاتى الور مجھے ناپسند كرنے لگتى اور ميرى بيوى بھى مجھ پر ناراض ہو جاتى ہے، اور اس طرح ميرى بيوى يہ سمجھتى ہے كہ ميں نے اس كى والدہ كو ناراض كيا ہے، اور اس طرح اس كى خشكى ميں اضافہ ہو جاتا ہے.
اور اب ميرى بيوى كہتى ہے كہ: وہ مجھ سے محبت كرتى ہے ليكن ميرے بارہ ميں پوچھتى تك نہيں، اور نہ ہى كبھى كوئى ميسج كيا ہے، اور جب ميں پہلے كرتے ہوئے كوئى ميسج كروں تو فورا جواب ديتى ہے ليكن ميرے بارہ ميں كوئى سوال نہيں كرتى.
كم از كم يہ كہ مجھ سے ناراض ہو تو وہ عناد ركھتى ہے اور اپنے معاملات ميں ميرے ساتھ بالكل خشك رويہ اپنانا شروع كر ديتى ہے، كيا ميں اسے طلاق دے دوں يا كہ اس كے تصرفات پر صبر و تحمل سے كام لوں اور جب وہ ميرے گھر آئے گى تو اس كے معاملات بہتر ہو جائيں گے ؟
يا ميں اس كے ساتھ كوئى نيا طريقہ اختيار كروں، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كى كوششوں ميں بركت عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم آپ كو كئى ايك باتيں كہيں گے اللہ سے اميد ہے كہ اس سے آپ كو ضرور فائدہ ہوگا:

اول:

آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ آپ اس بيوى كى بات نہيں كر رہے جو آپ كے گھر اور آپ كى اطاعت ميں ہے، بلكہ آپ تو رخصتى سے پہلے اس بيوى كے متعلق بات كر رہے ہيں جو ابھى اپنے گھر والوں كى مسؤليت اور ذمہ دارى ميں ہے، اور اس پر آپ كى اطاعت نہيں ہے.

دوم:

آپ يہ علم ميں ركھيں كہ آپ ميں ايسى صفات پائى جاتى ہيں جنہيں ہو سكتا ہے آپ كى بيوى پسند نہ كرے اور نہ ہى اس كے گھر والے اس كو پسند كريں، اور اسى طرح وہ بھى ہے، اور جس پر آپ ہيں اس پر آپ مستقل حكم نہيں لگا سكتے، اور نہ ہى وہ جس پر ہے شادى كے بعد اس پر يہ حكم نہيں لگايا جا سكتا، كيونكہ عادتا شادى كے بعد ايك گھر ميں خاوند اور بيوى اكٹھے ہو جائيں تو ان ميں بہت سارى تبديلياں واقع ہو جاتى ہيں، اور طبعتيں بدل جاتى ہيں، اور عملى اور نظرياتى اتفاق پيدا ہو جاتا ہے، جس كے سايہ ميں خاوند اور بيوى اپنى ازدواجى زندگى بسر كرنا شروع كر ديتے ہيں.

سوم:

آپ يہ مت بھوليں كہ آپ نسبتا ايك كم عمر بيوى كے ساتھ شادى شدہ ہيں، اور اس عمر ميں لڑكى كا اپنى والدہ كے ساتھ تعلق ركھنا ايك عام بات ہے، اور غالب حالات ميں يہ چيز مستقل نہيں رہتى جب وہ آپ كے گھر آ جائيگى تو بدل جائيگى.

اس ليے آپ كے ساتھ اس كا جو تعلق ہے اور جو كچھ ہوتا ہے اس كا اپنى والدہ كو بتانے سے آپ تعجب مت كريں، ہو سكتا ہے اس كى جانب سے يہ صرف والدہ كو بتانا مقصود ہو كہ وہ آپ كے ساتھ خوش ہے، اور خراب ترين حالت يہ ہو سكتى ہے كہ اس كى والدہ كا اس پر تسلط ہو تو آپ كو يہ برداشت كرنا ہوگا، كيونكہ لوگو كى طبعتيں مختلف ہوتى ہيں، جو شخص لوگوں كے حالات كو جانتا اور ان كے تصرفات كو ديكھتا ہے وہ اس كا انكار نہيں كريگا.

بلكہ عقلمند شخص تو اسے برداشت كرتا ہے؛ كيونكہ اس كے ليے ايك وقت مقرر ہے اور يہ سب كچھ اس ميں ختم ہو جائيگا، اور وہ وقت بيوى كا خاوند كے گھر ميں آنا ہے، جيسے ہى وہ اپنے خاوند كے گھر آ كر رہنے لگےگى تو اس ميں تديلياں شروع ہو جائينگى.

بلكہ ہم تو يہ بھى بعيد نہيں سمجھتے كہ آپ كى ساس كا رويہ بھى آپ كے ساتھ بہتر ہو جائيگا، بلكہ اگر آپ كى ساس اپنى بيٹى كى سعادت چاہتى ہے تو اس كے سامنے اس كے علاوہ كوئى اور طريقہ نہيں.

چہارم:

ہمارے سائل بھائى: ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنى ساس كے ساتھ ميٹھى بات چيت اور نرم رويہ اختيار كر كے اس كا دل جيتنے كى كوشش كريں، اور اچھے افعال و اعمال كريں، اور اسے ہديہ اور تحفہ وغيرہ ديں، اور اس كے ساتھ نرم رويہ ميں بات چيت كريں.

اس طرح وہ بھى اپنى بيٹى كے ساتھ خوش اور سعادت مندى حاصل كريگى، كيونكہ بيٹى پر ماں كى عظيم تاثير ہوتى ہے، اور اس كى راہنمائى ماں ہى كرتى ہے، اور خاص كر جب بيٹى چھوٹى عمر كى اور كم تجربہ ركھتى ہو، جيسا كہ آپ كى بيوى كى حالت ہے.

پنجم:

آپ كو شادى يعنى رخصتى جلدى كرنى چاہيے اس ميں تاخير مت كريں؛ تا كہ آپ اور آپ كے سسرال ميں كوئى جھگڑا نہ ہو، يا پھر آپ اور آپ كى بيوى كے مابين كوئى بات نہ ہو جائے جو شادى اور رختصى ميں تاخير كا باعث بنے يا پھر اللہ نہ كرے اس شادى كو ہى ختم كر دے.

ششم:

آپ كى بيوى كا آپ كو كہنا كہ " وہ آپ سے محبت كرتى ہے " آپ اس بات كو اہميت ديں اور اسے حقيقت كے رنگ ميں ديكھيں جو اس بات كى دليل ہے كہ اس كى ماں كى اس پر كوئى تاثر نہيں كہ آپ كى بيوى آپ كو پسند نہيں كرتى يا پھر آپ سے بغض ركھتى ہے.

آپ كا اپنى بيوى اور اپنى ساس كے ساتھ يہ معاملہ بہت اہم ہے، اس ليے ہميں تو يہى لگتا ہے كہ آپ كى بات صحيح نہيں كہ:

" ميں اپنى غلطى كا اعتراف كرتا ہوں كہ بہت ہى قليل عرصہ ميں ميں نے بہت جلدى سارى محبت اور بہت سارے تحفے اس پر نچھاور كر ديے ہيں "

بلكہ آپ نے جو كچھ كيا ہے وہ صحيح ہے، آپ كو اس سے اپنى محبت ميں اور اضافہ كرنا چاہيے، اور زيادہ سے زيادہ تحفے دے كر آپ اس كے دل كو جيتنے كى كوشش كريں، اور اس ميں اس كى والدہ كو ضرور تحفہ ديں.

ہفتم:

كوئى ايسى عقلمند ماں نہيں ہے جو اپنى بيوى كى سعادت نہ چاہتى ہو، يا پھر اپنى بيٹى كو بغير شادى كے گھر بٹھائے ركھنا پسند كرتى ہو، اس ليے آپ ايك لحظہ كے ليے بھى مت سوچيں كہ آپ كى ساس آپ كے ساتھ جو كچھ كر رہى ہے وہ اپنى بيٹى كو شادى سے روكنے كے ليے ہے.

بلكہ عاقل ماں باپ كے ليے تو اپنى بيٹى كا شادى كر كے اپنے خاوند كے گھر جانا ہى انتہائى مقصود ہوتا ہے.

ہشتم:

آخر ميں ہم يہ نصيحت نہيں كرتے كہ آپ اپنى بيوى كو طلاق ديں، اور ہمارى رائے كے مطابق اس مشكل كا يہ حل بھى نہيں كہ طلاق دے دى جائے، بلكہ اس سے تو مشكل اور بڑھے گى، كيونكہ آپ نے اس كا بطور بيوى تجربہ ہى نہيں كيا اور نہ ہى ماں كا.

بلكہ آپ نے اس كے ساتھ جو معاملات كيے ہيں وہ اس حالت ميں كيے ہيں كہ وہ تو ابھى اپنے گھر ميں كسى كے ماتحت رہ رہى ہے، اس ليے آپ كو يہ فيصلہ كرنے كا حق كہاں سے مل گيا كہ آپ كى شادى ناكام ہے، يا پھر آپ اس كے بارہ ميں حكم لگائيں كہ اس ميں آپ كى شريك حيات بننے كى صلاحيت نہيں ؟!

اس ليے آپ اس عرصہ ميں اس كے ساتھ زندگى پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور اپنى ساس كے ساتھ معاملات ميں اپنے رويہ اور طريقہ كو تبديل كريں، اور وہ اپنے والدين كے گھر رہتے ہوئے جو كچھ كرتى ہے جو آپ كو پسند نہيں اس پر اپنى بيوى كا مؤاخذہ مت كريں، بلكہ اسے اپنے گھر لانے ميں جلدى كريں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق عطا فرمائے سيدھى راہ كى راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب