الحمد للہ.
اول:
وقت سے پہلے پیشگی زکاۃ کی ادائیگی جائز ہے، اور اس بارے میں تفصیل کیلئے سوال نمبر: (98528) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
جس شخص نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کی لیکن بعد میں علم ہوا کہ اس نے واجب مقدار سے زیادہ زکاۃ ادا کر دی ہے تو اب اضافی زکاۃ کوآئندہ سال کی زکاۃ میں شمار نہیں کر سکتا، لیکن اگر اس نے اضافی زکاۃ ادا کرتے ہوئے آئندہ سال کی زکاۃ ادا کرنے کی نیت کی تھی تو ایسی صورت میں جائز ہے، اور اگر اس نے آئندہ سال کی زکاۃ پیشگی ادا کرنے کی نیت نہیں کی تو یہ عام صدقہ میں شمار ہو جائے گی، چنانچہ پیشگی زکاۃ میں شمار نہیں کر سکتا۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص ایک ہزار دراہم کو اپنا سمجھ کر سب کی پیشگی زکاۃ ادا کر دے، اور پھر بعد
میں علم ہو کہ اس میں سے پانچ سو کسی اور کے تھے ، تو یہ آئندہ سال کی زکاۃ بھی
شمار ہوگی؛ کیونکہ اس نے پیشگی زکاۃ ادا کرنے کی نیت کی تھی، اور اس کی اپنی رقم
صرف پانچ سو درہم تھی ، لہذا صرف پانچ سو کی زکاۃ اس کے ذمہ ہوگی بقیہ آئندہ سال کی
شمار ہو جائے گی" انتہی
"دقائق اولی النہى" (1/452)
اسی طرح "كشاف القناع" (2/266) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص اپنی مکمل مالیت ایک ہزار سمجھے اور پیشگی اس کی زکاۃ بھی ادا کر دے
لیکن بعد میں علم ہو کہ مکمل مالیت پانچ سو تھی تو آئندہ دو سالوں کی زکاۃ ادا ہو
جائے گی، کیونکہ اس کے پاس ہزار درہم تھے ہی نہیں کہ اس کی زکاۃ واجب ہوتی، اور
چنانچہ اضافی زکاۃ آئندہ سالوں کی زکاۃ میں شمار ہو جائے گی کیونکہ اس نے پیشگی
زکاۃ ادا کرنے کی نیت کی تھی" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک سائل نے واجب مقدار سے زیادہ زکاۃ ادا کر دی ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا
اسے آئندہ سال کی پیشگی زکاۃ میں شمار کر لے؟
تو ہم اسے کہیں گے کہ یہ آئندہ سال کی پیشگی زکاۃ میں اسے شمار نہیں کر سکتا؛
کیونکہ زکاۃ ادا کرتے ہوئے اس شخص نے یہ نیت نہیں کی تھی کہ یہ زکاۃ آئندہ سال کی
ہے، تاہم اضافی زکاۃ عام صدقہ شمار ہوگی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے: (بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور بیشک ہر شخص کیلئے وہی ہے جس کی اس
نے نیت کی )" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/309)
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"اگر کوئی شخص فرض زکاۃ کی مقدار سے زیادہ زکاۃ فرض سمجھتے ہوئے ادا کر دے تو یہ
عام صدقہ میں شمار ہوگی" انتہی
"لقاء الباب المفتوح"
واللہ اعلم.