الحمد للہ.
اول:
کسی بھی مسلمان کو سودی بینکوں میں اپنا سرمایہ نہیں رکھنا چاہیے، اور ایسے بینکوں میں بھی سرمایہ نہیں رکھنا چاہیے جو نام کے تو اسلامی ہیں لیکن کام میں اسلامی نہیں ہیں، اس لیے ایسے بینکوں کے نام بھی حقائق کے مطابق ہی ہونے چاہییں، لہذا اگر بینک کا نام اسلامی ہے تو کسی صورت میں لین دین وہاں نہیں ہونا چاہیے اس کیلئے شرعی قوانین کے مطابق سرمایہ کاری ہو اور منافع بھی شرعی نظام کے تحت ہی تقسیم کیا جائے، تو ایسی صورت میں سرمایہ کاری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (47651) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
پیشگی زکاۃ کی ادائیگی کے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے، یہی موقف جمہور علمائے کرام کا ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ زکاۃ وقت سے پہلے بغیر کسی وجہ کے ادا نہ کی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ واجب ہونے سے پہلے لیکن سبب وجوب کے پائے جانے کے وقت زکاۃ پیشگی ادا کرنا
جمہور علمائے کرام کے نزدیک جائز ہے جن میں ابو حنیفہ، شافعی اور احمد شامل ہیں،
چنانچہ جانوروں ، سونے چاندی، اور سامان تجارت کی زکاۃ نصاب پورا ہونے پر پیشگی
ادا کی جا سکتی ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 25 / 85 ، 86 )
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"زکاۃ کے مالی سال سے ایک یا دو سال قبل بھی زکاۃ ادا کی جا سکتی ہے اس میں کوئی
حرج نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت ہو ، یا فقراء و مستحقین کو
ماہانہ بنیاد پر زکاۃ کا مال دینا مقصود ہو" انتہی
شیخ عبد العزیز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی ، شیخ عبد الله بن غدیان ۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 9 / 422 )
اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا کہ:
"متعدد سالوں کی زکاۃ مصیبت زدہ اور مشکلوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کیلئے پیشگی ادا
کرنا کیسا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایک سال سے زیادہ کی زکاۃ پیشگی ادا کرنا صحیح موقف کے مطابق جائز ہے، زیادہ سے
زیادہ دو سال کی زکاۃ پیشگی ادا کی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، تاہم سب
سے افضل یہی ہے کہ وقت سے پہلے زکاۃ ادا نہ کی جائے، البتہ اگر کہیں قحط سالی ہو ،
یا جہادی ضروریات یا کوئی اور مسائل درپیش ہوں تو اس وقت ہم کہیں گے کہ پیشگی زکاۃ
ادا کر دی جائے، کیونکہ بسا اوقات غیر افضل کام بیرونی عوامل کی وجہ سے افضل بھی بن
جاتا ہے، چنانچہ افضل یہی ہے کہ وقت پر ہی زکاۃ ادا کی جائے، کیونکہ ایسا ممکن ہے
کہ انسان کا مال وقت آنے سے پہلے تلف ہو جائے یا کسی اور طرح ضائع ہو جائے۔
تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر زکاۃ کا وقت آنے پر مال ادا شدہ مال سے زیادہ ہو
گیا تو اس کی زکاۃ لازمی طور پر ادا کرنا ہوگی" انتہی
" فتاوى شیخ ابن عثیمین" (18/328)
سوم:
رأس المال اگر نصاب کو پہنچتا ہو اور اس پر سال گزر جائے تو رأس المال سمیت منافع کی زکاۃ بھی ساتھ ہی ادا کی جائے گی، یہاں سال گزرنے سے مراد ہجری سال ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"میرے پاس 15000 ریال ہیں، میں نے یہ رقم ایک آدمی کو منافع نصف نصف کی بنیاد پر
تجارت کیلئے دی، تو کیا اس مال پر زکاۃ ہے؟ کس میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی؟ رأس
المال سے یا منافع سے، یا پھر دونوں میں سے ؟اور اگر رأس المال پر زکاۃ واجب ہے تو
ہم نے رأس المال سے تجارت کیلئے مصلے، گھریلو سامان وغیرہ خرید لیا تھا، تو ایسی
صورت میں کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
" تجارت کیلئے مذکورہ مختص مال پرایک سال گزرنے کے بعد زکاۃ فرض ہوگی، اور ایک سال کے بعد رأس المال اور منافع دونوں کی مجموعی رقم سے زکاۃ ادا کی جائے گی، اور اگر رأس المال سے تجارت کی غرض سے سامان خریدا گیا تو سال پورا ہونے پر اس سارے سامان کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی، اور منافع سمیت مجموعی رقم میں سے 2.5٪ زکاۃ اس میں سے اد اکی جائے گی"انتہی
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ۔شیخ عبد الرزاق عفیفی ۔ شیخ عبد الله بن غدیان۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 9 / 356 ، 357 )
اسی طرح انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ:
"رأس المال پر اگر سال گزر جائے تو رأس المال کیساتھ منافع کی زکاۃ بھی ادا کرنا
ہوگی، اور منافع کیلئے الگ زکاۃ کا سال شمار نہیں ہوگا، بلکہ رأس المال کا سال ہی
منافع کا سال ہے" انتہی
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ۔شیخ عبد الرزاق عفیفی ۔ شیخ عبد الله بن غدیان۔
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 9 / 356 ، 357 )
ہم سائل محترم کو بتلانا چاہتے ہیں کہ اگر اسلامی بینک اپنے صارفین کی زکاۃ خود ہی منہا کرتا ہے تو پھر بینک کے معتمد اور شرعی مصارف میں زکاۃ صرف کرنے پر ان کی زکاۃ ادا ہو جاتی ہے، چنانچہ جو مال وغیرہ اس کے پاس موجود ہے بینک میں نہیں ہے صرف اس کی زکاۃ اسے دینا ہوگی۔
واللہ اعلم.