الحمد للہ.
اول:
سب سے پہلے تو ہمارى يہى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو شفا و عافيت سے نوازے اور ہميشہ آپ كو صحت مند ركھے، اور دنيا و آخرت ميں عافيت عطا فرمائے.
ہم آپ كو قرآن مجيد كى تلاوت كرنے، اور روزانہ بلا ناغہ صبح و شام كى دعائيں پڑھنے، اور شرعى دم استعمال كرنے كى نصيحت كرتے ہيں، اور اسى طرح آپ ڈاكٹروں سے مشورہ كرتے رہيں اور نا اميد مت ہوں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر بيمارى كا علاج اور دوائى و شفا ضرور نازل كى ہے.
يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت ہے كہ وہ وسوسے اور خيالات ميں بندے كا محاسبہ و مؤاخذہ نہيں كرتا.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے اپنے جى ميں بات كرنے سے درگزر فرمايا ہے جب تك وہ اس پر عمل نہ كر لے يا پھر زبان سے ادائيگى نہ كر دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5269 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 127 ).
اس ليے جب آپ ان وسوسوں كو ناپسند كرتے ہيں تو آپ پر كوئى گناہ نہيں، اور اسے ناپسند كرنے اور اس سے ركنے پر آپ كو اجروثواب ہوگا.
دوم:
بعض اہل علم كے ہاں حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا يہى اختيار ہے، اور شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ بھى يہى فتوى ديا كرتے تھے.
اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
جب آدمى كو طلاق دينے پر مجبور كر ديا جائے يعنى اگر طلاق نہيں ديتا تو اس كے بدن يا مال ميں اذيت و تكليف دى جائيگى، يا پھر كسى شخص كى جانب سے دھمكى ہو جس كے بارہ ميں غالب گمان ہو كہ وہ شخص اپنى دھمكى پر عمل بھى كريگا، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى.
زاد المستقنع ميں درج ہے:
" جس شخص كو بھى اسے يا اس كى بچے كو تكليف دينے كے ساتھ ظلم كرتے ہوئے طلاق دينے پر مجبور كر ديا جائے يا اس كا اتنا مال لينے كى دھمكى دى جائے جو اس كے ليے نقصاندہ ہو يا پھر كوئى ايك دھمكى دى جائے اور ظن غالب ہو كہ دھمكى دينے والا اپنى دھمكى كو نافذ كرنے پر قادر بھى ہو تو اس كے كہنے كے نتيجہ ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
اس بنا پر اگر آپ كے گمان ميں غالب يہ ہے كہ بيوى اپنى دھمكى پر عمل كريگى اور پوليس كو رپورٹ كر دےگى جس كى بنا پر آپ كو قيد ہو سكتى ہے اور جرمانہ كيا جا سكتا ہے اور آپ طلاق كے علاوہ كوئى طريقہ سے چھٹكارا نہيں حاصل كر سكتے تو آپ كى دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ يہ مجبور كردہ كى طلاق ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحابہ كرام كا فتوى ہے كہ مكرہ شخص يعنى مجبور كردہ شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح ثابت ہے كہ ايك شخص نے پہاڑ سے شہد نكالنے كے ليے رسى لٹكائى، تو اس كى بيوى آ كر كہنے لگى: مجھے طلاق دو وگرنہ ميں رسى كاٹ رہى ہوں، اس شخص نے اسے اللہ كا واسطہ ديا، ليكن بيوى نے ماننے سے انكار كر ديا، چنانچہ وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور يہ واقعہ ذكر كيا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
" جاؤ اپنى بيوى كے پاس واپس چلے جاؤ، كيونكہ يہ طلاق نہيں ہے "
اور پھر على اور ابن عمر اور ابن زبير رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى عدم وقوع بيان كيا گيا ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 208 ).
چہارم:
آپ نے اپنى بيوى سے اس كے ماضى ميں كيے گئے گناہ كے بارہ ميں دريافت كر كے غلطى كى ہے، كيونكہ يہ چيز ايسى تھى جس پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا تھا، آپ اس كے بارہ ميں تفتيش كيوں كر رہے ہيں، اور اس كو كيوں تلاش كرتے پھرتے ہيں ؟
اور پھر بيوى كے ليے اس كے بارہ ميں بتانا لازم نہ تھا كہ وہ اس كے متعلق آپ كو بتاتى، بلكہ اس كے ليے اپنے آپ كو رسوا اور ذليل كرنا جائز نہ تھا، بلكہ وہ اس كے متعلق توريہ اور كنايہ استعمال كر سكتى تھى، بلكہ اگر توريہ فائدہ نہ ديتا تو اس كے ليے جھوٹ بولنا جائز تھا.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى بيوى سے معذرت كريں اور اس كے سامنے واضح كريں كہ يہ سب كچھ آپ كے ارادہ و تصرف كے بغير ہوا ہے، اور آپ ايسے وسائل اختيار كريں جو آپ كو اپنى بيوى كو مارنے اور اذيت دينے سے روكيں، اور آپ اللہ كى اس نعمت كى قدر كريں كہ اس بيوى نے كتنا صبر كيا ہے اور وہ آپ كا كتنا خيال ركھتى ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو شفايابى و عافيت سے نوازے، اور آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جن سے اللہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .