الحمد للہ.
اول:
گائے یا اونٹ کی قربانی میں ایک سے زائد حصے دار شریک ہو سکتے ہیں ۔
چنانچہ گائے یا اونٹ میں سات حصہ دار شریک ہونے کی شرعی گنجائش موجود ہے۔
صحابہ کرام سے ہدی [حج یا عمرے کی قربانی] میں شریک ہونا ثابت ہے، اونٹ یا گائے کی قربانی میں سات حصے دار شریک ہوتے تھے۔
مسلم: (1318) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال اونٹ اور گائے سات سات افراد کی طرف سے ذبح کیے"
اور ایک روایت میں ہے کہ :
"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو ہمیں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ اور گائے میں سات سات حصے داروں کو شریک کرنے کا
حکم دیا"
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (45757) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
جمہور فقہائے کرام کے مطابق قربانی کا گوشت کھانا مسنون ہے واجب نہیں ہے۔
زاد المستقنع میں ہے کہ:
" ایک تہائی خود کھائے اور ایک تہائی تحفہ میں دے اور ایک تہائی صدقہ کرے تو یہ سنت
ہے"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں:
"یہ سنت ہے کا مطلب یہ ہے کہ: یہ بھی شرعی عمل ہے، تاہم واجب نہیں ہے، لیکن مستحب
ہے؛ چنانچہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک تہائی کھانے کیلیے
دوسری تہائی تحفے میں دینے کیلیے اور تیسری تہائی صدقہ کر دے۔
تحفہ دینے اور صدقہ کرنے میں فرق یہ ہے کہ: اگر کسی کو دیتے ہوئے
محبت اور الفت مقصود ہو تو وہ تحفہ ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: "تحائف دو محبت
پیدا ہو گی" اور جسے دیتے ہوئے اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہو تو وہ صدقہ ہے،
چنانچہ غریبوں کیلیے وہ صدقہ ہو گا اور مالدار حضرات کیلیے تحفہ۔
مؤلف کا یہ کہنا کہ تین حصوں میں تقسیم کرے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تہائی کھانے کیلیے
، ایک تہائی تحفے میں دینے کیلیے اور ایک تہائی صدقہ کرنے کیلیے؛ تا کہ تمام طبقات
کے لوگوں تک قربانی کا گوشت پہنچ جائے، لیکن خود کھانے کو قدرے ترجیح دے؛ کیونکہ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خود کھانے کو پہلے بیان فرمایا ہے:
(
فَكُلُوْا مِنْهَا وَأَطْعَمُوْا البَائِسَ الْفَقِيْر)
ترجمہ: خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقراء کو بھی کھلاؤ۔
[الحج/28]
مصنف کا یہ کہنا کہ: قربانی کا گوشت کھانا مسنون ہے۔
اس کا ظاہری مفہوم یہی بنتا ہے کہ اگر کوئی شخص مکمل گوشت صدقہ کر دے تو اس پر
کچھ نہیں ہے، کیونکہ قربانی کا گوشت کھانا سنت ہے جیسے کہ یہی موقف جمہور علمائے
کرام کا ہے۔
تاہم کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب ہے ، لہذا جو شخص اپنی قربانی کا گوشت نہ کھائے تو اسے گناہ ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے قربانی کا گوشت کھانے کا حکم دیا ہے اور صدقہ کرنے سے پہلے خود کھانے کا حکم دیاہے؛ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر حکم دیا تھا کہ : "ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک بوٹی لی جائے اور ایک ہانڈی میں ڈال کر پکایا جائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ نوش فرمایا" اس حدیث کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ : 100 اونٹوں کے گوشت میں سے ایک ایک بوٹی لیکر تکلف کرنا اور پھر اسے پکانا پھر اسے کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ سورہ حج کی مذکورہ آیت کریمہ میں گوشت کھانے کا حکم وجوب کیلیے ہے؛ نیز اپنی قربانی کا گوشت کھانا اللہ تعالی کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے زمرے میں آتا ہے اور اسی استفادے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الہی کے دن ہیں)
بہر حال انسان کو اپنی قربانی کا گوشت کھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے" انتہی
"الشرح الممتع" (7/481)
اگر معاملہ ایسا ہی ہے کہ عید کے دن 7 گائے بیک وقت ذبح کرنا مشکل ہے اور سب کے سب افراد کی چاہت ہے کہ وہ قربانی کا گوشت لے جائیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، چنانچہ جہاں تک ممکن ہو گائیں ذبح کر لیں اور سب لوگ ان کا گوشت اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں، اور جس کی قربانی پہلے دن ذبح نہ ہو تو وہ بھی جب دوسرے دن اس کی قربانی ذبح کی جائے تو اس میں سے چاہے معمولی سا گوشت لے جائے، لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
اول: پہلے دن یا بعد میں قربانی کے کسی بھی دن میں ذبح کی جانے والی ہر گائے کے گوشت میں سے صدقہ کیلیے گوشت مختص کرنا واجب ہے، سارے کا سارا گوشت حصہ داروں میں تقسیم نہ کیا جائے۔
دوم: ذبح کرتے وقت جن لوگوں کی قربانیاں ہیں ان کی تعیین کی جائے، چنانچہ ذبح کرنے والا ان تمام لوگوں کی طرف سے نام ذہن میں لا کر نیت کرے، چنانچہ سارے جانور تمام حصہ داروں کی طرف سے نیت کر کے ذبح کرنا درست نہیں ہو گا، لہذا کوئی بھی گائے ذبح کرتے ہوئے حصہ داروں کا تعین لازمی ہے۔
واللہ اعلم.