الحمد للہ.
اول:
سوال ميں مذكور والد جو نماز كا انكار كرتے ہوئے تارك نماز ہے وہ كافر ہے اور وہ كفر اكبر كا مرتكب ہے، جس كى بنا پر وہ ملت اسلاميہ سے خارج ہے، اس كے متعلق اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں، اس طرح كا عمل تو وہى شخص كرتا ہے جو ملحد و كيمونسٹ اور سياسى متكبر ہو.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو لائے ہيں اس ميں سے كسى بھى چيز كا انكار كرنا كفر ہے، اور اگر وہ نماز وغيرہ دوسرے اركان اسلام اور عظيم بنيادى امور سے تعلق ركھے تو يہ اور بھى زيادہ شديد كفر ہے.
كيونكہ اس كا انكار كرنے والا شخص معذور نہيں اس ليے كہ يہ امور تو مشہور ہيں، اور اسلامى ممالك ميں سب مسلمان ان كا علم بھى ركھتے ہيں، اور اس كى شان كى عظمت بھى جانتے ہيں، حتى كہ ان اركان كا تارك بھى اس كے انكار كرنے كى جرات بھى اسى وقت كرتا ہے جب وہ كفر و عناد ميں حد سے بڑھ چكا ہو، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ تعالى اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كے ہاں مرتد شخص اصلى كافر سے زيادہ عظيم جرم كا مرتكب ہے اس كى كئى ايك وجوہات ہيں:
اگر وہ دين اسلام ميں دوبارہ واپس نہيں آتے تو انہيں حتمى طور پر قتل كيا جائيگا، ان كا ذمہ اور انہيں امان دينا جائز نہيں، اور نہ ہى ان قيدى چھوڑا جائيگا، اور نہ ہى ان سے مال و اشخاص كا فديہ ليا جائيگا، اور ان كا ذبيحہ بھى نہيں كھايا جائےگا، اور ان كى عورتوں سے نكاح بھى نہيں كيا جائيگا، اور متفقہ طور پر ان كے مرتد رہتے ہوئے انہيں غلام بھى نہيں بنايا جائيگا.
ان ميں سے جو قتال كرے اور جو قتال نہ بھى كرے اسے قتل كر ديا جائيگا، مثلا بوڑھا فانى، اور اندھا، اس پر علماء كا اتفاق ہے، اور جمہور علماء كے ہاں اسى طرح ا نكى عورتيں بھى قتل كى جائينگى.
اصلى كافر كے ساتھ امن كا معاہدہ اور صلح نہيں ہوگى جمہور علماء كرام كے قول كے مطابق اگر اصلى كافر قيدى ہو تو اس سے فديہ قبول كيا جا سكتا ہے.
اور اگر وہ اہل كتاب سے تعلق ركھتا ہے تو اس كے ليے ذمہ كا معاہدہ كرنا اور ان كا ذبيحہ كھانا، اور ان كى عورتوں سے نكاح كرنا جائز ہے، ان كى عورتيں اگر قتال و لڑائى كريں اور مسلمانوں كے خلاف عملى يا قولى لڑائى ميں شريك ہوں اسے بھى قتل كر ديا جائيگا.
اسى طرح جمہور كے ہاں ان ميں سے صرف اسى كو قتل كيا جائيگا جو اہل قتال ہو، جيسا كہ سنت نبويہ كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے، چنانچہ مرتد كافر دين و دنيا ميں اصلى كافر جو اپنے كفر پر قائم ہے سے زيادہ برا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 413 ـ 414 ).
دوم:
اگر والد كا حال يہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے تو پھر ہم ايسے شخص كے بيٹے سے شادى كرنے كى نصيحت نہيں كرتے ليكن اگر بيٹا آپ كو عليحدہ رہائش لے كر ديتا ہے جو والد سے دور ہو تو پھر ٹھيك ہے، اصل ميں طبعى امر واقع تو يہى ہے كہ آپ اپنے اور خاوند كے گھر والوں سے عليحدہ رہائش ميں شادى كر كے رہيں.
اور يہ كہ خاوند والدين كے ساتھ ايك ہى رہائش ميں رہتا ہے، اور وہ اپنى زندگى اس والد كے ساتھ ايسے بسر كر رہا ہے جيسے كچھ ہوا ہى نہيں، اور گويا كہ والد نے كوئى عظيم كام نہيں كيا، ہم اس ميں اس كى موافقت نہيں كريں گے، بلكہ بيٹے كو چاہيے كہ وہ والد كو وعظ و نصيحت كرے، اور جس گمراہى و ضلالت اور كفر ميں ہے اس سے روكے، اور اگر اس كے باوجود بھى والد كفر پر اصرار كرتا ہے تو بيٹا اس كو چھوڑ كر عليحدہ ہو جائے اور اس سے ميل جول مت كرے، اس طرح وہ اپنى اولاد اور بيوى كو محفوظ ركھ سكتا ہے، جب تك وہ اپنے ارتداد پر قائم ہے اس سے عليحدہ رہے.
مزيد معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 141680 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .